پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا
شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا
میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشانی شب ہجر
ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا
پارہ ہائے دل خونیں کی طلب تھی پیہم
شب جو آنکھوں میں مری ذوق خود آرائی تھا
رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا
آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا
لب پہ اے جان تو اعجاز مسیحائی تھا
خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے
یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا
دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا
انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم
جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا
کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم
چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا
خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا
لحد تیرہ میں بھی کیا عالم تنہائی تھا
ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |