پریشان اے زلف بہر دم نہ ہو
Appearance
پریشان اے زلف بہر دم نہ ہو
سنان مژہ کی تو پرچم نہ ہو
طبیبو یہی آرزو ہے مجھے
سر داغ پر پائے مرہم نہ ہو
مرا حال درہم نہ ہو اس قدر
جو زلف سیہ اس کی برہم نہ ہو
جفا کار ہو تیری دولت زیاد
مرا آہ و نالہ کبھی کم نہ ہو
جلوں شمع ساں گرمیٔ عشق سے
دم سرد میرا جو بے دم نہ ہو
وہی دم دم آخری ہو مرا
تری یاد میں صرف جو دم نہ ہو
صفا پروراں شعلہ رو مل چکا
کبھی آگ اور پانی باہم نہ ہو
لبوں پر ترے دانت تو ہے مگر
ڈروں ہوں کہیں یہ شکر سم نہ ہو
سدا رو بہ رو ہے وہ خورشید رو
کبھی خشک یہ دیدۂ نم نہ ہو
نہ سجدہ کرے کوئی محراب کو
سر اس کا تواضع سے گر خم نہ ہو
غم اس کا جو ہو خانہ پرداز دل
تو ؔجوشش کسی چیز کا غم نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |