پالا امید و بیم سے ناگاہ پڑ گیا
Appearance
پالا امید و بیم سے ناگاہ پڑ گیا
دل کا بنا بنایا گھروندا اجڑ گیا
الٹی تھی مت زمانۂ مردہ پرست کی
میں ایک ہوشیار کہ زندہ ہی گڑ گیا
شربت کا گھونٹ جان کے پیتا ہوں خون دل
غم کھاتے کھاتے منہ کا مزہ ہی بگڑ گیا
ایسے کے پاؤں چومئے یا پیار کیجیے
قدموں پہ میں جھکا تو وہ دونا اکڑ گیا
دونوں کے دل سے پوچھئے انجام کار عشق
سل گھستے گھستے گھس گئی بٹا رگڑ گیا
کھینچی جو صدق دل سے اسیروں نے آہ سرد
پھر کیا تھا پاؤں باد خزاں کا اکھڑ گیا
اللہ ری کشاکش دیر و حرم کہ یاسؔ
حیرت کے مارے بیچ دوراہے پہ گڑ گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |