ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ
by بہادر شاہ ظفر
294652ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچبہادر شاہ ظفر

ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ
سرخاب بیٹھے پانی میں ہیں مل کے چار پانچ

منہ کھولے ہیں یہ زخم جو بسمل کے چار پانچ
پھر لیں گے بوسے خنجر قاتل کے چار پانچ

کہنے ہیں مطلب ان سے ہمیں دل کے چار پانچ
کیا کہیے ایک منہ ہیں وہاں مل کے چار پانچ

دریا میں گر پڑا جو مرا اشک ایک گرم
بت خانے لب پہ ہو گئے ساحل کے چار پانچ

دو چار لاشے اب بھی پڑے تیرے در پہ ہیں
اور آگے دب چکے ہیں تلے گل کے چار پانچ

راہیں ہیں دو مجاز و حقیقت ہے جن کا نام
رستے نہیں ہیں عشق کی منزل کے چار پانچ

رنج و تعب مصیبت و غم یاس و درد و داغ
آہ و فغاں رفیق ہیں یہ دل کے چار پانچ

دو تین جھٹکے دوں جوں ہی وحشت کے زور میں
زنداں میں ٹکڑے ہوویں سلاسل کے چار پانچ

فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دوست
اب ہم بھی آ ملے تو ہوئے مل کے چار پانچ

ناز و ادا و غمزہ نگہ پنجۂ مژہ
ماریں ہیں ایک دل کو یہ پل پل کے چار پانچ

ایما ہے یہ کہ دیویں گے نو دن کے بعد دل
لکھ بھیجے خط میں شعر جو بیدل کے چار پانچ

ہیرے کے نورتن نہیں تیرے ہوئے ہیں جمع
یہ چاندنی کے پھول مگر کھل کے چار پانچ

مینائے نہہ فلک ہے کہاں بادۂ نشاط
شیشے ہیں یہ تو زہر ہلاہل کے چار پانچ

ناخن کریں ہیں زخموں کو دو دو ملا کے ایک
تھے آٹھ دس سو ہو گئے اب چھل کے چار پانچ

گر انجم فلک سے بھی تعداد کیجئے
نکلیں زیادہ داغ مرے دل کے چار پانچ

ماریں جو سر پہ سل کو اٹھا کر قلق سے ہم
دس پانچ ٹکڑے سر کے ہوں اور سل کے چار پانچ

مان اے ظفرؔ تو پنج تن و چار یار کو
ہیں صدر دین کی یہی محفل کے چار پانچ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse