Jump to content

ٹوٹے جو دانت منہ کی شباہت بگڑ گئی

From Wikisource
ٹوٹے جو دانت منہ کی شباہت بگڑ گئی
by شاد لکھنوی
323604ٹوٹے جو دانت منہ کی شباہت بگڑ گئیشاد لکھنوی

ٹوٹے جو دانت منہ کی شباہت بگڑ گئی
وہ گھر ہوا خراب جہاں پھوٹ پڑ گئی

وہ زار ہوں جو سانس دم مرگ اکھڑ گئی
میت کنار گور میں کانٹے سی گڑ گئی

ڈھونڈھو چراغ لے کے ضعیفوں گلی گلی
غم ہو گیا شباب جوانی بچھڑ گئی

پھولوں پھلوں میں کیا چمن روزگار میں
میں وہ نہال سبز ہوں گھن جس کی جڑ گئی

چاہا جو مالش کف افسوس کیجیے
ہاتھوں کو یہ ملا کہ ہتھیلی رگڑ گئی

گل آ کے زیر کفش صبا صاف ہو گیا
جوتی جو بے حیا کے پڑی خاک جھڑ گئی

عقدہ کھلا یہ دست حنا بند یار سے
منہدی ہے اپنے چور کی مشکیں جکڑ گئی

وہ گل عرق فشاں نظر آیا جو باغ میں
شبنم پہ اوس آب خجالت سے پڑ گئی

ڈھانپا کفن میں منہ کو جو شرم گناہ سے
میت مری زمیں میں خجالت سے گڑ گئی

اے شادؔ لکھنؤ کی خرابی نہ پوچھئے
بستی بسی بسائی گلوں کی اجڑ گئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.