ٹوٹے جو دانت منہ کی شباہت بگڑ گئی
Appearance
ٹوٹے جو دانت منہ کی شباہت بگڑ گئی
وہ گھر ہوا خراب جہاں پھوٹ پڑ گئی
وہ زار ہوں جو سانس دم مرگ اکھڑ گئی
میت کنار گور میں کانٹے سی گڑ گئی
ڈھونڈھو چراغ لے کے ضعیفوں گلی گلی
غم ہو گیا شباب جوانی بچھڑ گئی
پھولوں پھلوں میں کیا چمن روزگار میں
میں وہ نہال سبز ہوں گھن جس کی جڑ گئی
چاہا جو مالش کف افسوس کیجیے
ہاتھوں کو یہ ملا کہ ہتھیلی رگڑ گئی
گل آ کے زیر کفش صبا صاف ہو گیا
جوتی جو بے حیا کے پڑی خاک جھڑ گئی
عقدہ کھلا یہ دست حنا بند یار سے
منہدی ہے اپنے چور کی مشکیں جکڑ گئی
وہ گل عرق فشاں نظر آیا جو باغ میں
شبنم پہ اوس آب خجالت سے پڑ گئی
ڈھانپا کفن میں منہ کو جو شرم گناہ سے
میت مری زمیں میں خجالت سے گڑ گئی
اے شادؔ لکھنؤ کی خرابی نہ پوچھئے
بستی بسی بسائی گلوں کی اجڑ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |