وہ ہو کیسا ہی دبلا تار بستر ہو نہیں سکتا
Appearance
وہ ہو کیسا ہی دبلا تار بستر ہو نہیں سکتا
غلط ہے آدمی اس طرح لاغر ہو نہیں سکتا
کبھی آنسو کا قطرہ مثل گوہر ہو نہیں سکتا
غلط ہے ابر نیساں دیدۂ تر ہو نہیں سکتا
میاں مجنوں ہوں چاہے کوہ کن ہو دونوں خبطی تھے
کسی کا کچھ بھی ان سے خاک پتھر ہو نہیں سکتا
کمر جس کے نہ ہو وہ بار سے کیوں کر چلے گا پھر
خلاف عقل ہے یہ اس طرح پر ہو نہیں سکتا
کہو پھر یہ کمر موٹی ہے سر چھوٹا ہے دلبر کا
نہیں تو پھر قد جاناں صنوبر ہو نہیں سکتا
وہ خط شوق کے جتنے پلندے چاہے لے جائے
ملازم ڈاک خانے میں کبوتر ہو نہیں سکتا
ظریفؔ آئینہ دے کر ڈارون صاحب کو سمجھا دو
نہ ہو جب تک شریر انسان بندر ہو نہیں سکتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |