وہ ہو علاج درد مداوا کہیں جسے
Appearance
وہ ہو علاج درد مداوا کہیں جسے
ایسا تو ہو کوئی کہ مسیحا کہیں جسے
پرسان حال کوئی نہیں جس کا نام لیں
اک درد دل ہی ہے کہ شناسا کہیں جسے
مشکل یہ ہے کہ آپ تو سنتے ہی کچھ نہیں
روداد عشق وہ کہ فسانہ کہیں جسے
جلوے سے دیکھیے کہیں آنکھیں جھپک نہ جائیں
یوں چشم وا ہو ذوق تماشا کہیں جسے
اللہ ایسی دے تجھے توفیق اے جنوں
سر میں وہ دھن سمائے کہ سودا کہیں جسے
سب حسرتوں کو خاک میں ظالم ملا دیا
اب دل میں کیا رہا کہ تمنا کہیں جسے
یہ بار زندگی کہیں ہلکا نہ شوقؔ ہو
اتنا تو ہو کہ حاصل دنیا کہیں جسے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |