وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
مگر منجملۂ آداب غم خواری ہے غم میرا
وہاں سجدے سے اب تک قدسیوں کے سر نہیں اٹھتے
پڑا تھا جس جگہ راہ محبت میں قدم میرا
زہے تقدیر ناکامی کہ تیری مصلحت ٹھہری
تری مرضی سے وابستہ ہوا اللہ رے غم میرا
نہ جانیں اس سفر کی منزل اول کہاں ہوگی
فنا کی آخری منزل پہ ہے پہلا قدم میرا
مرے جوش طلب کی شان استغنا کوئی دیکھے
کہ میں رہبر سے آگے مجھ سے آگے ہے قدم میرا
میں وہ آزردۂ وہم مسرت ہوں معاذ اللہ
کہ غم کو غم سمجھنے سے بھی گھبراتا ہے دم میرا
یہ محروم تبسم میر سامان تبسم ہے
تری بزم طرب میں معتبر ہے اشک غم میرا
اب آگے کس سے لکھا جائے آغاز محبت پر
فسانہ ختم کر دیتے ہیں ارباب قلم میرا
مری آوارگی ہر قید سے بے زار ہے شاید
کہ اب اس کی گلی میں بھی گزر ہوتا ہے کم میرا
بقا کہتے ہیں جس کو وہ مرا احسان ہے فانیؔ
وہ حادث ہوں کہ دنیائے قدم بھرتی ہے دم میرا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |