وہ پاس ہے تیرے دور نہیں تو واصل ہے مہجور نہیں
وہ پاس ہے تیرے دور نہیں تو واصل ہے مہجور نہیں
کیوں حبل مرکب میں ہے پھنسا مختار ہے تو مجبور نہیں
سرگرم شوق و حضور نہیں دل سرد ہے تو محرور نہیں
جس قلب میں عشق کا نور نہیں وہ تاب جلوۂ طور نہیں
ہر رنگ میں ہے وہ جلوہ نما تو ایک حجاب میں جا کے چھپا
کیوں کور سواد ہوا ہے بتا کیا آنکھوں میں ترے نور نہیں
جو عشق میں بر سر دار ہوا سردار وہی سرشار ہوا
سرمست وصال یار ہوا کس طرح کہیں منصور نہیں
جو باطن میں مشغول ہوئے محبوب ہوئے مقبول ہوئے
مجہول ہوئے معروف کہاں مشہور جو ہیں منظور نہیں
کیوں محو سر پندار ہوا اے مشت خاک ہے نقش فنا
دنیا میں کہاں ہے رنگ بقا جمشید نہیں مغفور نہیں
مستور جو تھا منظور ہوا وہ جلوۂ رنگ ظہور ہوا
جو حجاب تھا رخ سے دور ہوا مشتاق لقا مہجور نہیں
جو آپ ہوا بے نام و نشاں اس کو ہے ملا وہ جان جہاں
معراج وصال ہے اس کو کہاں جو عشق میں چکنا چور نہیں
میں تیرا فدائے سراپا ہوں میں تالب وصل معرا ہوں
مشتاق و شیدا تیرا ہوں میں طالب حور و صور نہیں
مخمور جام باقی ہے شیدائے نوائے عراقی ہے
سرشار محبت ساقیؔ ہے سر مست ہے یہ مستور نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |