وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے
نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں سے پار ہو جائے
مگر جب روئے تاباں پر پڑے بے کار ہو جائے
تبسم کی ادا سے زندگی بیدار ہو جائے
نظر سے چھیڑ دے رگ رگ مری ہشیار ہو جائے
تجلی چہرۂ زیبا کی ہو کچھ جام رنگیں کی
زمیں سے آسماں تک عالم انوار ہو جائے
تم اس کافر کا ذوق بندگی اب پوچھتے کیا ہو
جسے طاق حرم بھی ابروئے خم دار ہو جائے
سحر لائے گی کیا پیغام بیداری شبستاں میں
نقاب رخ الٹ دو خود سحر بیدار ہو جائے
یہ اقرار خودی ہے دعوئ ایمان و دیں کیسا
ترا اقرار جب ہے خود سے بھی انکار ہو جائے
نظر اس حسن پر ٹھہرے تو آخر کس طرح ٹھہرے
کبھی خود پھول بن جائے کبھی رخسار ہو جائے
کچھ ایسا دیکھ کر چپ ہوں بہار عالم امکاں
کوئی اک جام پی کر جس طرح سرشار ہو جائے
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |