وہ مسیحا قبر پر آتا رہا
Appearance
وہ مسیحا قبر پر آتا رہا
میں موے پر روز جی جاتا رہا
زندگی کی ہم نے مر مر کے بصر
وہ بت ترسا جو ترساتا رہا
واہ بخت نارسا دیکھا تجھے
نامہ بر سے خط کہیں جاتا رہا
راہ تکتے تکتے آخر جاں گئی
وہ تغافل کیش بس آتا رہا
دل تو دینے کو دیا پر ہم نشیں
ہاتھ میں مل مل کے پچھتاتا رہا
دیکھ اس کو ہو گیا میں بے خبر
دل یکایک ہاتھ سے جاتا رہا
کیا کہوں کس طرح فرقت میں جیا
خون دل پیتا تو غم کھاتا رہا
رات بھر اوس برق وش کی یاد میں
سیل اشک آنکھوں سے برساتا رہا
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اس کو جا بہ جا
دل خدا جانے کدھر جاتا رہا
اس مسیحا کی امید وصل میں
شام جیتا صبح مر جاتا رہا
عشق کا رعناؔ مرض ہے لا دوا
کب سنا تو نے کہ وہ جاتا رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |