وہ مجھ سے بے خبر ہیں ان کی عادت ہی کچھ ایسی ہے
Appearance
وہ مجھ سے بے خبر ہیں ان کی عادت ہی کچھ ایسی ہے
میں ان کو یاد کرتا ہوں محبت ہی کچھ ایسی ہے
میں آؤں وعظ میں سو بار جب یہ دل بھی آنے دے
کروں کیا واعظو رندوں کی صحبت ہی کچھ ایسی ہے
میں کس گنتی میں ہوں اور اک مرے دل کی حقیقت کیا
ہزاروں جان دیتے ہیں وہ صورت ہی کچھ ایسی ہے
کوئی آئے یہ آتی ہے کوئی جائے یہ جاتا ہے
مرا دل ہی کچھ ایسا ہے طبیعت ہی کچھ ایسی ہے
ہمارا کیا بگڑ جاتا حسنؔ تیری سفارش میں
ہماری ان کی اب صاحب سلامت ہی کچھ ایسی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |