وہ زیب شبستاں ہوا چاہتا ہے
Appearance
وہ زیب شبستاں ہوا چاہتا ہے
یہ مجمع پریشاں ہوا چاہتا ہے
بری ہو گئی شہرت کوئے جاناں
کوئی خانہ ویراں ہوا چاہتا ہے
ترے غم نے سب کام آساں کئے ہیں
کہ مرنا بھی آساں ہوا چاہتا ہے
چلے آتے ہیں سیر کرتے ہوئے وہ
گلستاں گلستاں ہوا چاہتا ہے
نہ دیکھا کرو تم کہ اب آئنہ بھی
مری چشم حیراں ہوا چاہتا ہے
نکالا ہے یہ رنگ حالیؔ نے سالکؔ
کہ ہر شعر دیواں ہوا چاہتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |