وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
Appearance
وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو
پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا
چراغ لے کے ارادہ تھا یار کو ڈھونڈیں
شب فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا
خبر کو یار کی بھیجا تھا گم ہوئے ایسے
حواس رفتہ کا اب تک سراغ بھی نہ ملا
جلالؔ باغ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ بھی نہ ملا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |