Jump to content

وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا

From Wikisource
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
by فانی بدایونی
299766وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیافانی بدایونی

وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
عیسیٰ کو ہو نوید کہ بیمار مر گیا

آزاد کچھ ہوئے ہیں اسیران زندگی
یعنی جمال یار کا صدقہ اتر گیا

دنیا میں حال آمد و رفت بشر نہ پوچھ
بے اختیار آ کے رہا بے خبر گیا

شاید کہ شام ہجر کے مارے بھی جی اٹھیں
صبح بہار حشر کا چہرہ اتر گیا

آیا کہ دل گیا کوئی پوچھے تو کیا کہوں
یہ جانتا ہوں دل ادھر آیا ادھر گیا

ہاں سچ تو ہے شکایت زخم جگر غلط
دل سے گزر کے تیر تمہارا کدھر گیا

دل کا علاج کیجیے اب یا نہ کیجیے
اپنا جو کام تھا وہ غم یار کر گیا

کیا کہیے اپنی گرم روی ہائے شوق کو
کچھ دور میرے ساتھ مرا راہبر گیا

فانیؔ کی ذات سے غم ہستی کی تھی نمود
شیرازہ آج دفتر غم کا بکھر گیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.