Jump to content

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب چاہ نہ تھی پیار نہ تھا

From Wikisource
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب چاہ نہ تھی پیار نہ تھا (1930)
by نشتر چھپروی
324071وہ بھی کیا دن تھے کہ جب چاہ نہ تھی پیار نہ تھا1930نشتر چھپروی

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب چاہ نہ تھی پیار نہ تھا
ہجر کا رنج نہ تھا عشق کا آزار نہ تھا

بے خودی تیرا برا ہو مجھے جب ہوش آیا
دل نہ تھا سینے میں پہلو میں وہ عیار نہ تھا

دے کے دل ان کو پڑی جان غضب میں میری
وصل کو کہئے تو کہتے ہیں کہ اقرار نہ تھا

کیوں لحد کو مرے ٹھکرا کے مٹایا اس نے
میری جانب سے مکدر جو ستم گار نہ تھا

لب پہ فریاد رہی اشک رہے آنکھوں میں
کب ترا دھیان مجھے اے بت عیار نہ تھا

یہ بھی دن ہیں کہ حسینوں پہ مٹا جاتا ہوں
وہ بھی دن تھے کہ مجھے عشق کا آزار نہ تھا

حشر میں فضل سے اپنے مجھے حق نے بخشا
گو کہ دنیا میں کوئی مجھ سا سیہ کار نہ تھا

نگہ مست نے تیری یہ دکھائی تاثیر
سب تھے بدمست کوئی رات کو ہشیار نہ تھا

اے جنوں موسم گل میں ترے ہاتھوں ہے ہے
دامن و جیب میں دیکھا تو کوئی تار نہ تھا

پیٹتا تھا کبھی سر کو تو کبھی سینے کو
شب تنہائی میں اے شوخ میں بے کار نہ تھا

کوچۂ یار سے یوں شیخ و برہمن نکلے
سر پہ دستار نہ تھی دوش پہ زنار نہ تھا

کیا محبت نے مری اپنی دکھائی تاثیر
کس لئے بزم میں شب مجمع اغیار نہ تھا

ہجو مے کرتے تھے کل حضرت واعظ سر راہ
خیریت گزری کہ سنتا کوئی مے خوار نہ تھا

یوں تو شب بزم میں ہر ایک گیا اور آیا
ایک بد بخت میں ہی تھا جسے واں یار نہ تھا

جاگتا میرا نصیبہ جو شب وصل عدو
پاسباں یہ تو ترا دیدۂ بے دار نہ تھا

درد و اندوہ و غم و رنج و الم اے نشترؔ
ایک دنیا تھی مری لاش پہ وہ یار نہ تھا


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.