Jump to content

وہ برق جلوہ دکھائے جمال اگر اپنا

From Wikisource
وہ برق جلوہ دکھائے جمال اگر اپنا (1934)
by ابراہیم عاجز
324625وہ برق جلوہ دکھائے جمال اگر اپنا1934ابراہیم عاجز

وہ برق جلوہ دکھائے جمال اگر اپنا
تو اے کلیم کریں ہم نثار سر اپنا

وہ ذات پاک کہاں یہ نگار خاک کہاں
جو دیکھے اس کو ذرا دیکھے منہ بشر اپنا

کہیں خزاں ہی بنا وہ کہیں بہار بنا
غرض ہر ایک چمن میں کیا گزر اپنا

بسا ہے میری ہی آنکھوں میں کچھ نہیں وہ شوخ
دلوں میں سب کے بنایا ہے اس نے گھر اپنا

حریم کعبہ میں بت خانہ میں کلیسا میں
بنائے قبلہ تمہیں صاحب نظر اپنا

مقام عبرت و حسرت سرائے فانی ہے
بنا لیا ہے جسے غافلوں نے گھر اپنا

گہر نہ سمجھو ان اشکوں کو ہیں یہ لعل سپید
دکھا رہی ہے یہ اعجاز چشم تر اپنا

سمجھ کے عیب کریں گے حسود مجھ پر طعن
یہی ہے سوچ دکھاؤں کسے ہنر اپنا

فنا کی راہ میں وہ گرم رو ہوں اے عاجزؔ
کہ سایہ بھی نہیں واللہ ہم سفر اپنا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).