وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
Appearance
وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
وہی پھر سحر تک کی بیداریاں
پری حور انساں کسی میں نہیں
جو دیکھی ہیں تجھ میں ادا داریاں
میں کافر ہوں پر دیکھ سکتا نہیں
کمر سے تری ربط زناریاں
نہ تھے داغ سینے کے اتنے گھنے
یہ ہیں دست قدرت کی گل کاریاں
ہم اک روز جی سے گزر جائیں گے
رہیں یوں ہی گر نت کی بے زاریاں
بہاریں کہاں ابر گلنار کی
کہاں میری مژگاں کی خوں باریاں
نہ سجدوں سے حاصل ہوا وصل یار
میں کعبے میں بھی ٹکریں ماریاں
مواقیس جس دم تو ثابت ہوئیں
سوا عشق کے کتنی بیماریاں
تو کیسی بلا میں پھنسا مصحفیؔ
ہوئیں کیا دوانے وہ ہشیاریاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |