Jump to content

وقت کی چیز

From Wikisource
وقت کی چیز (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324687وقت کی چیز1940علی منظور حیدرآبادی

سب جسے انتہا کہیں تو اسے ابتدا سمجھ
ہو نہ اسی سمجھ پہ خوش یوں ہی بڑھائے جا سمجھ
ذوق سفر گھٹا نہ دے لوگ کہیں جو نا سمجھ
حاصل مدعا کو بھی پرتو مدعا سمجھ
اور بلندیوں پہ جا راز عروج کا سمجھ

دل میں ہے درد قوم اگر قوم کی جلد لے خبر
قوم سے ہیں جو بے خبر قوم کی ان کو دے خبر
سوچ کہ اپنی قوم سے کون ہے آج بے خبر
کام کا آدمی ملے یا نہ ملے کسے خبر
کیا نہیں تو خود آدمی خود کو ہی کام کا سمجھ

تیرے حدود میں کہیں آئیں نظر نہ پستیاں
لائق اعتنا نہ ہوں غیروں کی چیرہ دستیاں
درخور التفات ہوں کیوں یہ ذلیل ہستیاں
جس کی خودی پہ چھین لیں قوم کی خود پرستیاں
ایسے خودی نواز کو قوم کا رہنما سمجھ

قوت زر سے جو بشر آئی بلا کو ٹال دے
اس کی کرامتوں میں جس اور بھی ذوالجلال دے
اس سے اگر ہے بد ظنی دل میں تو اب نکال دے
قوم کی مفلسی کو جو معرض شک میں ڈال دے
ایسے بھی مال دار کو مکرمت آشنا سمجھ

تو نہ رکھ اتنی حب زر دل میں مگر یہ رکھ خیال
وقت کی چیز بن گئی آج نمود جاہ و مال
تیرے نمود پر کرے فخر ہر ایک با کمال
عزت قوم کا ہے جز عزت نفس کا سوال
اپنے بھی ارتقا کو تو قوم کا ارتقا سمجھ


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).