وقت رخصت چلتے چلتے کہہ گئے
Appearance
وقت رخصت چلتے چلتے کہہ گئے
اب جو ارماں رہ گئے سو رہ گئے
جلد باز ارماں ترے دیدار کے
خون ہو کر آنسوؤں میں بہہ گئے
عمر بھر سوچا کیے سمجھے نہ ہم
آنکھوں آنکھوں میں وہ کیا کیا کہہ گئے
کیا چھپاتا ہے مرا حال اے طبیب
کہنے والے میرے منہ پر کہہ گئے
اس کی منزل تک نہ پہنچا ایک بھی
سب مسافر راستے میں رہ گئے
پہلے ناطقؔ دل جگر میں درد تھا
اب سراپا درد بن کر رہ گئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |