وقت آخر ہمیں دیدار دکھایا نہ گیا
وقت آخر ہمیں دیدار دکھایا نہ گیا
ہم تو دنیا سے گئے آپ سے آیا نہ گیا
راز پوشی سے کبھی ہاتھ اٹھایا نہ گیا
نبض دکھلائے مرض اپنا بتایا نہ گیا
پھوٹ نکلی نہ رکی سینے کی اندر خوشبو
مشک تھا داغ محبت کہ چھپایا نہ گیا
میرا دل کس نے لیا نام بتاؤں کس کا
میں ہوں یا آپ ہیں گھر میں کوئی آیا نہ گیا
ہاتھ اٹھا بیٹھے ہم اس زندگیٔ شیریں سے
غم جدائی کا یہ تھا تلخ کہ کھایا نہ گیا
جب کیا قصد کہ احسان کسی کا لوں میں
آبرو گھٹنے لگی ہاتھ بڑھایا نہ گیا
آج وہ حال ہے اپنا جو کسی نے پوچھا
ہو گئے قفل دہن شرم بتایا نہ گیا
رنج پوچھا جو محبت میں تو راحت سمجھے
دکھ اٹھایا کبھی دل اس سے اٹھایا نہ گیا
کچھ نہ پوچھو لب شیریں کی حلاوت ہم سے
یہ وہ حلوا ہے کبھی بانٹ کے کھایا نہ گیا
حیف آنکھوں نے بھی دیکھی نہ مری تشنہ لبی
منہ میں پانی مژۂ ترسی چوایا نہ گیا
ناتوانی کا برا ہو ہم ادھر کو جو چلے
تیور آ آ گئے گر گر پڑے جایا نہ گیا
مغز چاٹا کبھی اندوز و نصیحت والے
غم ہمارا کسی غم خوار سے کھایا نہ گیا
دوست کب دوست کا ہوتا ہے مخل راحت
سو گئے پاؤں تو ہاتھوں سے جگایا نہ گیا
کب حرارا دل بیتاب کا رونے سے مٹا
شعلۂ برق کبھی منہ سے بجھایا نہ گیا
آمد یار کی کیا کیا نہ سنی گرم خبر
عمر بھر راستہ دیکھا کوئی آیا نہ گیا
جس کے جویا ہوئے ہم ڈھونڈھ نکالا اس کو
عقل غم ہے کہ مزاج آپ کا پایا نہ گیا
اس کے کوچے سے ضعیفی میں بھی اٹھے نہ قدم
سر پہ دھوپ آ گئی دیوار کا سایا نہ گیا
قطع جب سے ہوئی امید وصال جاناں
اس طرح بیٹھ گیا دل کہ اٹھایا نہ گیا
جاگنا ہی مری تقدیر میں کیا لکھا تھا
شب فرقت میں اجل سے بھی سلایا نہ گیا
قصد تھا بحرؔ کا بت خانے سے کعبے کی طرف
لاابالی ہے خدا جانے گیا یا نہ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |