وسعت بحر عشق کیا کہیے
وسعت بحر عشق کیا کہیے
ابتدا ہو تو انتہا کہیے
تیرے جور و جفا کو کیا کہیے
ناز کہیے انہیں ادا کہیے
اس ستم گر کو اور کیا کہیے
سارے جھوٹوں کا پیشوا کہیے
پوچھنا چاہیے طبیبوں سے
درد دل کی ہے یہ دوا کہیے
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کچھ سمجھ کر برا بھلا کہیے
غیروں کے سامنے بلا کے مجھے
کہتے ہیں دل کا مدعا کہیے
نہ کوئی یار ہے نہ ہے غم خوار
کس سے اب دل کا ماجرا کہیے
پیتے ہیں جو شراب مسجد میں
ایسے لوگوں کو پارسا کہیے
شرم کیا ہے مجھے جو کہنا ہو
سامنے سب کے برملا کہیے
وہ جفا گر فلک ستم گر ہے
کسے اچھا کسے برا کہیے
غیر ساتھ آپ کے مزے لوٹیں
ہم اٹھائیں جفائیں کیا کہیے
بھول کر لے گیا سوئے منزل
ایسے رہزن کو رہنما کہیے
چار اگر یار ہیں تو دس دشمن
راز دل کا نہ جا بہ جا کہیے
جان سے گر گیا کوئی عاشق
عشق کی اس کو ابتدا کہیے
کیا یہی شرط ہے محبت کی
بے وفاؤں کو با وفا کہیے
شیخ پیتے ہیں جو مئے الفت
اس کو کس طرح ناروا کہیے
دل کا سینہ کا اور جگر کا حال
ہے یہ واجب جدا جدا کہیے
حال سنتے نہیں مرا نہ سنو
اپنے دل کا تو ماجرا کہیے
مشرقیؔ چھوڑیئے بتوں کا ذکر
صبح اٹھ کر خدا خدا کہیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |