Jump to content

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر

From Wikisource
وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316281وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کرغلام علی ہمدانی مصحفی

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
پانو میں اس غزال کے زنجیر وصل کر

زخمی شکار ہوں میں ترا مر ہی جاؤں گا
پہلو سے مت جدا تو مرے تیر وصل کر

اک لحظہ تیری باتوں سے آتا ہے دل کو چین
ہم دم خدا کے واسطے تقریر وصل کر

دست دراز اپنے کو طوق گلو مرا
تو ایک دم تو اے خم شمشیر وصل کر

اے مہ یہ تیری دور کشی کب تلک بھلا
اک شب تو تو ارادۂ شب گیر وصل کر

سینہ پہ سینہ خشت پہ گویا کہ خشت ہے
اب اے فلک نظارۂ تعمیر وصل کر

تہمت لگے گی پاس بٹھانے سے فائدہ
ناحق نہ مجھ کو مورد تقصیر وصل کر

مت چاندنی میں آ کہ زمانہ غیور ہے
اس کام کو سپرد شب قیر وصل کر

شاید کہ پڑھ کے نرم ہو دل اس کا مصحفیؔ
جا کر حوالے اس کے یہ تحریر وصل کر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.