وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
ہم قفس راز اسیری کیا کہیں کیونکر کھلا
فرصت رنج اسیری دی نہ ان دھڑکوں نے ہائے
اب چھری صیاد نے لی اب قفس کا در کھلا
اللہ اللہ اک دعائے مرگ کے دو دو اثر
واں کھلا باب اجابت یاں قفس کا در کھلا
اف اس آزادئ بے ہنگام کی مجبوریاں
میں قفس کے پاس یوں بیٹھا ہی رہتا پر کھلا
عجلت پرواز جب ملنے بھی دے راہ گریز
یوں تو کھلنے کو قفس کا در کھلا اکثر کھلا
بند ہے باب قفس ہو سر تو پٹکے جائیے
ہم نے دیکھا ہے قفس کی تیلیوں میں در کھلا
کم تو کیا صیاد بے تابی سوا ہو جائے گی
تو نے ناحق تیلیوں میں رکھ دیا خنجر کھلا
آسماں گرم تلافی چاہیئے کیسا قفس
بجلیوں کے اک اشارے میں قفس کا در کھلا
لکھ چکے ہم جا چکا خط گر یہی حالت رہی
ہاتھ میں آیا قلم اور شوق کا دفتر کھلا
دل میں زخم اشکوں میں خوں صورت ببیں عالم مپرس
وہ نگہ اف وہ مژہ ناوک چھپا نشتر کھلا
دم بخود سکتے کا عالم مردنی چھائی ہوئی
رنگ میری زندگی کا میری میت پر کھلا
دل میں تیرا دھیان اک مدت رہا بیگانہ وار
کھلتے ہی کھلتے کھلا اور کیا ہی شرما کر کھلا
دیکھیے کیا گل کھلاتی ہے بہار اب کے برس
خواب میں فانیؔ نے دیکھا ہے قفس کا در کھلا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |