Jump to content

نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں

From Wikisource
نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316293نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوںغلام علی ہمدانی مصحفی

نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں
عاشق ہوں میں کسی کا اور آفت رسیدہ ہوں

ہستی سے اپنی مجھ کو نہیں مطلق آگہی
عمر گزشتہ یا کہ غزال رمیدہ ہوں

نکلے ہے میری وضع سے اک شورش جنوں
دریا نہیں میں سیل گریباں دریدہ ہوں

مرغان باغ میں مرے نالے کا شور ہے
ہر چند میں ابھی نفس نا کشیدہ ہوں

پہنچے سزا کو اپنی جو منہ پر مرے چڑھے
میں دست روزگار میں تیغ کشیدہ ہوں

جاتا ہے جلد قافلۂ عمر کس قدر
مہلت نہیں ہے اتنی کہ ٹک آرمیدہ ہوں

کون اٹھ گیا ہے پاس سے میرے جو مصحفیؔ
روتا ہوں زار زار پڑا آب دیدہ ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.