نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
Appearance
نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
فقط میں ہی میں ہوں تو پھر تو ہی تو ہے
نہ یہ ہے نہ وہ ہے نہ میں ہوں نہ تو ہے
ہزاروں تصور اور اک آرزو ہے
نہ امید جھوٹی نہ کچھ یاس سچی
نہیں جو کہیں بھی وہی چار سو ہے
کسے ڈھونڈھتے ہیں یہی ڈھونڈھتے ہیں
یہی جستجو ہے اگر جستجو ہے
جگائے گا کس طرح شور قیامت
خموشی سے ناچار ہر گفتگو ہے
خودی بھی ہماری خدائی سہی
وہی ہم نشیں ہے وہی دو بہ دو ہے
مگر دشنہ تھا سایۂ زلف ساقی
کہ جو زخم ہے ساغر مشک بو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |