نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے
نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے
نکالے پر ہے مثل ماہی تصویر پہلو سے
نہ لے اے ناوک افگن دل کو میرے چیر پہلو سے
کہ وہ تو جا چکا ساتھ آہ کے جوں تیر پہلو سے
دل سیپارہ کو لے ٹانک تعویذوں میں ہیکل کے
نہ سرکا یہ حمائل اے بت بے پیر پہلو سے
وہ ہوں بے دست و پا بسمل رسائی جب نہ ہاتھ آئی
کیا تا پائے قاتل از تہ شمشیر پہلو سے
اسیر زلف دیوانے ہیں دیکھ اے پاسباں شب کو
دبا کر بیٹھ ان کے پاؤں کی زنجیر پہلو سے
مصور لیلیٰ و مجنوں کی ناکامی پہ حیراں ہیں
کبھی بیٹھا نہ مل کر پہلوئے تصویر پہلو سے
یہ دل لب تشنہ تیغ یار کا ہے رات بھر کرتا
صدائے العطش جوں نالۂ شب گیر پہلو سے
عجب حسرت کا عالم تھا کہ مجنوں کہتا تھا پیہم
چھٹے پہلو مرے محمل کا یا تقدیر پہلو سے
نہ کہنا استخواں ان کو یہ عالم لاغری کا ہے
کہ ہے دکھلا رہا میرا دل دلگیر پہلو سے
خیال ابروئے جاناں نہیں اب بھولتا اک دم
سپاہی ہے جدا کرتا نہیں شمشیر پہلو سے
تمام اہل سخن بزم سخن میں ذوقؔ حیراں ہیں
ملا جو قافیہ تو نے کیا تحریر پہلو سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |