Jump to content

نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست

From Wikisource
نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست
by میر تقی میر
313536نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوستمیر تقی میر

نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست
نہ چھوڑا پیچھے جیتا کوئی اے دوست
رہیں نالاں نہ کیونکر مثل نے دوست
ستم گذرا غضب ہے دوست ہے دوست

کہاں آیا تو اپنے پاؤں چل کر
جہاں سر یوں دیا آخر کو جل کر
کہیں سو کیا کہیں اب ہاتھ مل کر
یہی کہتے ہیں سب ہے دوست ہے دوست

ہوئے درپے سبھی ناموس و جاں کے
تھے اسلامی ترے دشمن کہاں کے
بکھر جاتے ہیں جی پیر و جواں کے
کہیں ہیں لڑکے جب ہے دوست ہے دوست

فلک کی چال کینے کی نہ سمجھا
ہوا پامال تو نقش قدم سا
گیا سر کیوں کبھو تونے تو اس جا
نہ رکھا پا کڈھب ہے دوست ہے دوست

وطن سب کا عرب مدت کا باسا
امام دیں محمدؐ کا نواسا
موا آنکھوں کے آگے سب کے پیاسا
عجب بل صد عجب ہے دوست ہے دوست

جنھوں سے تھی امید مہربانی
دریغ ان سب نے رکھا تجھ سے پانی
ہوئی دریا پہ مشکل زندگانی
موا تو تشنہ لب ہے دوست ہے دوست

ہوئی نانا کی امت دشمن جاں
رہا تو دیر خاک و خوں میں غلطاں
رہی دیں داری و اسلام و ایماں
نہ عزت نے ادب ہے دوست ہے دوست

سبب ہو تو کہے کوئی موالی
کہاں کی دشمنی تجھ سے نکالی
نہیں مرنا ترا حسرت سے خالی
گیا جی بے سبب ہے دوست ہے دوست

بھتیجے بھائی بیٹے تیرے پیارے
گئے ناچار ہوکر جی سے مارے
ترے حصے میں کیا آئے تھے سارے
غم و رنج و تعب ہے دوست ہے دوست

اٹھائے تونے کیا کیا رنج و محنت
گیا لے یاں سے کیسی کیسی حسرت
یہ گر ایام پر پڑتی مصیبت
تو دن ہوجاتے شب ہے دوست ہے دوست

وطن سے ہائے کر کر رہ گرائی
مصیبت دیکھی یا ایذا اٹھائی
گیا جی سے ولے تونے نہ پائی
زمیں بھی یک وجب ہے دوست ہے دوست

سنی ہے مرگ ایسی بھی بہت کم
رکے جاتے ہیں جی ہر لحظہ ہر دم
کہیں کیا با ہزار افسوس و غم ہم
کہا کرتے ہیں اب ہے دوست ہے دوست

غیور ایسا نہ کوئی ہم نے پایا
جگر حسرت نے پانی کر دکھایا
موا لب خشک پر لب پر نہ لایا
کبھو حرف طلب ہے دوست ہے دوست

ترے اندوہ کہنے میں نہ آئے
کڑوڑوں لاکھوں غم جی میں سمائے
یہی افسوس کر سب کہنے پائے
عجم سے تا عرب ہے دوست ہے دوست

ترے ماتم کے جب پڑتے ہیں اسباب
نہیں رہتی جیوں میں مطلقاً تاب
جگر پھٹتے ہیں کس حسرت سے احباب
کہیں ہیں زیر لب ہے دوست ہے دوست

کہوں یہ واقعہ آگے تو غم ہو
دلوں کو میرؔ صدگونہ الم ہو
موا جس طرح وہ ثابت قدم ہو
مرے یوں کوئی کب ہے دوست ہے دوست


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.