نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست
نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست
نہ چھوڑا پیچھے جیتا کوئی اے دوست
رہیں نالاں نہ کیونکر مثل نے دوست
ستم گذرا غضب ہے دوست ہے دوست
کہاں آیا تو اپنے پاؤں چل کر
جہاں سر یوں دیا آخر کو جل کر
کہیں سو کیا کہیں اب ہاتھ مل کر
یہی کہتے ہیں سب ہے دوست ہے دوست
ہوئے درپے سبھی ناموس و جاں کے
تھے اسلامی ترے دشمن کہاں کے
بکھر جاتے ہیں جی پیر و جواں کے
کہیں ہیں لڑکے جب ہے دوست ہے دوست
فلک کی چال کینے کی نہ سمجھا
ہوا پامال تو نقش قدم سا
گیا سر کیوں کبھو تونے تو اس جا
نہ رکھا پا کڈھب ہے دوست ہے دوست
وطن سب کا عرب مدت کا باسا
امام دیں محمدؐ کا نواسا
موا آنکھوں کے آگے سب کے پیاسا
عجب بل صد عجب ہے دوست ہے دوست
جنھوں سے تھی امید مہربانی
دریغ ان سب نے رکھا تجھ سے پانی
ہوئی دریا پہ مشکل زندگانی
موا تو تشنہ لب ہے دوست ہے دوست
ہوئی نانا کی امت دشمن جاں
رہا تو دیر خاک و خوں میں غلطاں
رہی دیں داری و اسلام و ایماں
نہ عزت نے ادب ہے دوست ہے دوست
سبب ہو تو کہے کوئی موالی
کہاں کی دشمنی تجھ سے نکالی
نہیں مرنا ترا حسرت سے خالی
گیا جی بے سبب ہے دوست ہے دوست
بھتیجے بھائی بیٹے تیرے پیارے
گئے ناچار ہوکر جی سے مارے
ترے حصے میں کیا آئے تھے سارے
غم و رنج و تعب ہے دوست ہے دوست
اٹھائے تونے کیا کیا رنج و محنت
گیا لے یاں سے کیسی کیسی حسرت
یہ گر ایام پر پڑتی مصیبت
تو دن ہوجاتے شب ہے دوست ہے دوست
وطن سے ہائے کر کر رہ گرائی
مصیبت دیکھی یا ایذا اٹھائی
گیا جی سے ولے تونے نہ پائی
زمیں بھی یک وجب ہے دوست ہے دوست
سنی ہے مرگ ایسی بھی بہت کم
رکے جاتے ہیں جی ہر لحظہ ہر دم
کہیں کیا با ہزار افسوس و غم ہم
کہا کرتے ہیں اب ہے دوست ہے دوست
غیور ایسا نہ کوئی ہم نے پایا
جگر حسرت نے پانی کر دکھایا
موا لب خشک پر لب پر نہ لایا
کبھو حرف طلب ہے دوست ہے دوست
ترے اندوہ کہنے میں نہ آئے
کڑوڑوں لاکھوں غم جی میں سمائے
یہی افسوس کر سب کہنے پائے
عجم سے تا عرب ہے دوست ہے دوست
ترے ماتم کے جب پڑتے ہیں اسباب
نہیں رہتی جیوں میں مطلقاً تاب
جگر پھٹتے ہیں کس حسرت سے احباب
کہیں ہیں زیر لب ہے دوست ہے دوست
کہوں یہ واقعہ آگے تو غم ہو
دلوں کو میرؔ صدگونہ الم ہو
موا جس طرح وہ ثابت قدم ہو
مرے یوں کوئی کب ہے دوست ہے دوست
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |