نہ چھوڑا دل خستہ جاں چلتے چلتے
نہ چھوڑا دل خستہ جاں چلتے چلتے
غضب کر چلے مہرباں چلتے چلتے
کہیں گے کچھ اے باغباں چلتے چلتے
اگر دے گی یارا زباں چلتے چلتے
گرے ہم پس کارواں چلتے چلتے
تھکے پاؤں اپنے کہاں چلتے چلتے
تری چال باد خزاں نے اڑائی
اجاڑا مرا آشیاں چلتے چلتے
کرو آنکھیں جھپکا کے ترچھی نگاہیں
سنانیں چلیں برچھیاں چلتے چلتے
بھریں سرد آہیں جو گرم آہ بھر کے
نسیم آئی باد خزاں چلتے چلتے
نہ گھبرا ذرا دامن روز محشر
کروں گا تری دھجیاں چلتے چلتے
عدم کو چلے قید زلف صنم میں
رہیں پاؤں میں بیڑیاں چلتے چلتے
دم نزع سر پر گرے کوہ الفت
اٹھائیں بڑی سختیاں چلتے چلتے
مری لاش کو پاؤں سے خوب روندا
تھمے صورت آسماں چلتے چلتے
بس اب تو عدم میں ملاقات ہوگی
یہ کہتے گئے رفتگاں چلتے چلتے
نہ قاتل نے تیغ نگہ تک لگائی
نہ کرتا گیا امتحاں چلتے چلتے
جہاں سے گئے حشر تک خوب سوئے
لیا ساتھ خواب گراں چلتے چلتے
رہے عمر بھر تیری وحدت کے قائل
نہ لیں ہم نے دو ہچکیاں چلتے چلتے
رشیدؔ حزیں لاکھ روکا کیے ہم
وہ لیتے گئے نقد جاں چلتے چلتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |