نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا
نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا
چلا جاوے اگرچہ رووتا محشر تلک دریا
کہاں ایسا مبکی ہو کہ جاوے تا فلک دریا
نہیں ہم چشم میرے اشک کا مارے ہے جھک دریا
ہوا ہے چشم حیرت دیکھ تیری آب رفتاری
کنارے نہیں رہا ہے کھول ان دونوں پلک دریا
بھر آوے آب حسرت اس کے منہ میں جب لہر آوے
اگر دیکھے ترے ان نرم گالوں کے تھلک دریا
نہیں ہیں یہ حباب آتے ہیں جو نظروں میں مردم کی
جلن مجھ اشک کی سیں دل میں رکھتا ہے پھلک دریا
اگر ہو کوہ تو ریلے سیں اس لشکر کے چل جاوے
کہاں سکتا ہے مجھ انجھواں کی فوجاں سیں اٹک دریا
اثر کرنے کا نہیں سنگیں دلاں میں روونا ہرگز
کرارے سخت ہیں بے جا رہا ہے سر پٹک دریا
یقیں آیا کیا جب اس کے تئیں پانی سیں بھی پتلا
ہمارے اشک کی گرمی میں کچھ رکھتا تھا شک دریا
نہیں ممکن ہمارے دل کی آتش کا بجھا سکنا
کرے گر ابر طوفاں خیز کوں آ کر کمک دریا
نہ ہووے آبروؔ خانہ خرابی کیوں کہ مردم کی
کیا انجھواں میں میرے اب سما سیں تا سمک دریا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |