نہ ٹھیری جب کوئی تسکین دل کی شکل یاروں میں
Appearance
نہ ٹھیری جب کوئی تسکین دل کی شکل یاروں میں
تو آ نکلے تڑپ کر ہم تمہارے بے قراروں میں
کسی کے عشق میں درد جگر سے دل یہ کہتا ہے
ادھر بھی آ نکلنا ہم بھی ہیں امیدواروں میں
وہ ماتم بزم شادی ہے تمہاری جس میں شرکت ہو
وہ مرنا زندگی ہے تم جہاں ہو سوگواروں میں
تعلی سے یہ نفرت ہے کہ بعد مرگ خاک اپنی
اگر اٹھتی بھی ہے جا بیٹھتی ہے خاکساروں میں
ہمارے دل نے ہم سے بے وفائی کر کے کیا پایا
وہاں بھی جا کے ٹھہرایا گیا بے اعتباروں میں
وہ کھینچوں گا جلالؔ آہیں کہ اس کی خاک اڑا دیں گی
فلک نے پیس ڈالا ہے سمجھ کر خاکساروں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |