نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو
Appearance
نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو
نظر والوں تمہیں کرنا ہے اب دنیا میں کیا سمجھو
طلب میں صدق ہے تو ایک دن منزل پہ پہنچو گے
قدم آگے بڑھاؤ خود کو اپنا رہنما سمجھو
یہ کیا انداز ہے اتنا گریز اہل تمنا سے
خدا توفیق دے تو اہل دل کا مدعا سمجھو
تمہارے ہر اشارے پر سر تسلیم خم لیکن
گزارش ہے کہ جذبات محبت کو ذرا سمجھو
ہو کوئی موج طوفاں یا ہوائے تند کا جھونکا
جو پہنچا دے لب ساحل اسی کو ناخدا سمجھو
جسے دیکھو وہی بدمست ہی مغرور ہے ہمدم
کوئی بندہ نہیں دنیا میں کس کس کو خدا سمجھو
یہاں رہبر کے پردے میں بہت رہزن ہیں اے اخترؔ
رہو دور اس سے تم جس کو وفا نا آشنا سمجھو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |