Jump to content

نہ بھولنا مجھے دل سے مری خبر لینا

From Wikisource
نہ بھولنا مجھے دل سے مری خبر لینا (1895)
by رنج حیدرآبادی
324374نہ بھولنا مجھے دل سے مری خبر لینا1895رنج حیدرآبادی

نہ بھولنا مجھے دل سے مری خبر لینا
جو یاد آؤں کبھی میں تو یاد کر لینا

ہوئے ہیں خبط میں کیا مبتلا ترے عاشق
ضرور کیا ہے کہ دل دے کے درد سر لینا

وہ سب سے کہنے لگے تاک کر مرے دل کو
کسی طرح بھی ہے لینا اسے مگر لینا

شب وصال کی وہ شرم یاد آتی ہے
حیا سے منہ پہ دوپٹے کو اپنے دھر لینا

انہیں منا کے خوشامد سے التجاؤں سے
کسی طرح سے جواب اے پیامبر لینا

وہ آ کے لیٹے جو پہلو میں میرے وصل کی شب
کہا یہ دل نے مرے خواب رات بھر لینا

ہمارے دل کے خریدار اور بھی ہیں بہت
نہ دیر کیجئے منظور ہے اگر لینا

جسے وہ چاہیں بڑھائیں جسے وہ چاہیں گھٹائیں
یہ ان کا کھیل ہے دشمن کو دوست کر لینا

دکھا دکھا کے نہ تم اور مجھ کو ترساؤ
میں مر گیا تو مرے بعد بن سنور لینا

ملا کے خاک میں دل کو وہ میرے کہتے ہیں
یہ جس قدر ہوا نقصان ہم سے بھر لینا

جو تم میں ہے یہ کمال اور کو نصیب کہاں
دکھا کے جلوہ ہر اک کو غلام کر لینا

ہوا جو قطع تعلق تو کیا غرض اس سے
نہ آپ رنجؔ کا اب نام عمر بھر لینا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.