نہیں ہونے کا یہ خون جگر بند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں ہونے کا یہ خون جگر بند
by امداد علی بحر
302760نہیں ہونے کا یہ خون جگر بندامداد علی بحر

نہیں ہونے کا یہ خون جگر بند
نہ باندھی آستین آنکھوں پہ تر بند

نہ پوچھو بے بسی اپنا ہے وہ حال
اسیر رشتہ بر پا مرغ پر بند

جدا ہوتا نہیں پہلو سے دم بھر
یہ داغ دل ہے یا کوئی جگر بند

کہیں ایسا نہ ہو وہ آ کے پھر جائے
کسی شب بند ہوں آنکھیں نہ در بند

یہی قاصد پتا ہے اس کے گھر کا
ادھر جا جس طرف ہے رہ گزر بند

یہ چوسر عشق بازی کی ہے اے دل
نہ چلنا چال وہ جس سے ہو گھر بند

اجازت اک تڑپ کی دے جو صیاد
قفس کو لے اڑیں ہم مرغ پر بند

یہ حال ناتوانی ہے کہ آنکھیں
کھلیں جو ایک دم تو دوپہر بند

نہیں یہ پتلیاں او چشم فتاں
ترے گھر میں ہیں دو فتنے نظر بند

میں گھبراتا ہوں محرم سے تمہاری
کھلے دل کی گرہ کھولو اگر بند

دعا یہ مانگتا ہوں میں شب وصل
قیامت تک رہی باب سحر بند

خدا جانے کہاں ہوں اور کیا ہوں
کھلے احوال کیا جب ہو خبر بند

جو ہاتھ آئیں اسے یہ دانۂ اشک
رہی مشت صدف مثل گہر بند

لکھے گا حال دل اے بحرؔ کب تک
بس اب ویفر لگا مکتوب کر بند

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse