نہیں کرتی اثر فریاد میری
Appearance
نہیں کرتی اثر فریاد میری
کوئی کس طرح دیوے داد میری
فغان جاں گسل رکھتا ہوں لیکن
نہیں سنتا مرا صیاد میری
تو اے پیغام بر جھوٹی ہی کچھ کہہ
کہ خوش ہو خاطر ناشاد میری
میں تجھ کو یاد کرتا ہوں الٰہی
ترے بھی دل میں ہوگی یاد میری
نہیں ہوتا مقید میں کسی کا
طبیعت ہے بہت آزاد میری
ادھر اے مصحفیؔ کیا دیکھتا ہے
غزل سن آ مرے استاد میری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |