نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے
Appearance
نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے
مسافر دشمنوں میں آ پڑا ہے
رقیب اپنے اوپر ہوتے ہیں مغرور
غلط جاناں ہے حق سب سیں بڑا ہے
جو وہ بولے سوئی وہ بولتا ہے
رقیب اب بھوت ہو کر سر چڑھا ہے
خدا حافظ ہے میرے دل کا یارو
پتھر سیں جا کے یہ شیشہ لڑا ہے
برنگ ماہیٔ بے آب نس دن
سجن نیں دل ہمارا تڑپھڑا ہے
رقیباں کی نہیں فوجاں کا وسواس
ادھر سیں عاشقاں کا بھی دھڑا ہے
کرے کیا آبروؔ کیوں کر ملن ہو
رقیباں کے صنم بس میں پڑا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |