نوح کا طوفان اک آنسو سے برپا کیجئے
Appearance
نوح کا طوفان اک آنسو سے برپا کیجئے
جی میں آتا ہے کہ اب قطرہ کو دریا کیجئے
بے خبر بن جائیے یا عہد پورا کیجئے
جس طرح سے آپ کا جی چاہے اچھا کیجئے
عیسی دوراں سہی لیکن کوئی شاہد بھی ہو
ہم ابھی تو جی اٹھیں گے آپ اشارا کیجئے
ہو چکا ہونا تھا جو کچھ جائیے بس جائیے
مرنے والے کو نہ اب للہ رسوا کیجئے
پھر ذرا جھلکی دکھا کر اک ذرا چھپ جائیے
دل کے ہر ذرے میں آباد ایک دنیا کیجئے
دل ہمارا ہے ہم اس کے ہیں ازل سے راز دار
آپ خود آ کر سر بازار رسوا کیجئے
کون کہتا ہے کہ ان قصوں کو پھر دہرائیے
دل کی آبادی مٹا کر ذکر صحرا کیجئے
رازداری عشق میں عالمؔ نہیں چھوٹی سی بات
دل ہی دل میں سوچتا رہتا ہوں اب کیا کیجئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |