Jump to content

نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری

From Wikisource
نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
by میر انیس
294915نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میریمیر انیس

نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری
شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں

ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کردوں
گنگ کو، ماہر انداز تکلم کر دوں
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں

اس ثنا خواں کے بزرگوں میں ہیں کیا کیا مداح
جدّ اعلیٰ سے نہ ہوگا کوئی اعلیٰ مداح
باپ مداح کا مداح ہے دادا مداح
عم ذی قدر ثنا خوانوں میں یکتا مداح
جو عنایات الٰہی سے ہوا نیک ہوا
نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا

طبع ہر ایک کی موزوں قد زیبا موزوں
صورت سرو ازل سے ہیں سراپا موزوں
نثربے سجع نہیں، نظم معلیٰ موزوں
کہیں سکتہ نہیں آ سکتا، کجا ناموزوں
تول لے عقل کی میزاں میں جو فہمیدہ ہے
بات جو منہ سے نکلتی ہے وہ سنجیدہ ہے

خلق میں مثل خلیق اور تھا خوش گو کوئی کب
نام لے دھو لے زباں کوثر و تسنیم سے جب
بلبل گلشن زہرا و علی عاشق رب
متبع مرثیہ گوئی میں ہوئے جس کے سبب
ہو اگر ذہن میں جودت ہے کہ موزونی ہے
اس احاطے سے جو باہر ہے وہ بیرونی ہے

بھائی خوش فکرت و خوش لہجہ و پاکیزہ خصال
جن کا سینہ گہر علم سے ہے مالا مال
یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ سلاست یہ کمال
معجزہ گر نہ اسے کہیے تو ہے سحر حلال
اپنے موقع پہ جسے دیکھیے لاثانی ہے
لطف حضرت کا یہ ہے رحمت یزدانی ہے

کیوں نہ ہو بندۂ موروثیٔ مولا ہوں میں
قلزم رحمت معبود کا قطرہ ہوں میں
جس میں لاکھوں در و مرجاں ہیں وہ دریا ہوں میں
مدح خوانِ پسرِ حضرتِ زہرا ہوں میں
وصف جوہر کا کروں یا صفت ذات کروں
اپنے رتبے پہ نہ کیوں آپ مباہات کروں

مبتدی ہوں مجھے توقیر عطا کر یارب
شوقِ مداحیِٔ شپیر عطا کر یارب
سنگ ہو موم وہ تقریر عطا کر یارب
نظم میں رونے کی تاثیر عطاکر یا رب
جد و آبا کے سوا اور کوئی تقلید نہ ہو
لفظ مغلق نہ ہوں گنجلک نہ ہوں تعقید نہ وہ

وہ مرقع ہو کہ دیکھیں اسے گر اہل شعور
ہر ورق میں کہیں سایہ نظر آئے کہیں نور
غل ہو یہ ہے کششِ مو قلم طرۂ حور
صاف ہر رنگ سے ہو صنعت صانع کا ظہور
کوئی ناظر جو یہ نایاب نظیریں سمجھے
نقشِ ارژنگ کو کاواک لکیریں سمجھے

قلمِ فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
شمعِ تصویر پہ گرنے لگیں آ آ کے پتنگ
صاف حیرت زدہ مانیؔ ہو تو بہزادؔ ہو دنگ
خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں صفِ جنگ
رزم ایسی ہو کہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی
بجلیاں تیغوں کی آنکھوں میں چمک جائیں ابھی

روزمرہ شرفا کا ہو سلامت ہو وہی
لب و لہجہ وہی سارا ہو متانت ہو وہی
سامعیں جلد سمجھ لیں جسے، صنعت ہو وہی
یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی
لفظ بھی چست ہوں مضمون بھی عالی ہووے
مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہووے

ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے
تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے
سرمہ زیبا ہے فقط نرگسِ جادو کے لیے
زیب ہے خالِ سیۂ چہرۂ گلرو کے لیے
داند آنکس کہ فصاحت بہ کلامے دارد
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد

بزم کا رنگ جدا، رزم کا میداں ہے جدا
یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا
فہم کامل ہو، تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا
مختصر پڑھ کے رلا دینے کا ساماں ہے جدا
دبدبہ بھی ہو، مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو
دل بھی محفوظ ہوں، رقت بھی ہو تعریف بھی ہو

ماجرا صبحِ شہادت کا بیان کرتا ہوں
رنج و اندوہ و مصیبت کا بیاں کرتا ہوں
تشنہ کاموں کی عبادت کا بیاں کرتا ہوں
جاں نثاروں کی اطاعت کا بیاں کرتا ہوں
جن کا ہمتا نہیں، ایک ایک مصاحب ایسا
ایسے بندے نہ کبھی ہوں گے ، نہ صاحب ایسا

صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یادِ الٰہی میں طیور
مثلِ خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
شش جہت میں رخِ مولا سے ظہور حق تھا
صبح کا ذکر ہے کیا، چاند کا چہرہ فق تھا

ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں وہ سحر
دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
اوس نے فرشِ زمرد پہ بچھائے تھے گہر
لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر
دشت سے جھوم کے جب بادِ صبا آتی تھی
صاف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آتی تھی

بلبلوں کی وہ صدائیں، وہ گلوں کی خوشبو
دل کو الجھاتے تھے، سنبل کے وہ پر خم گیسو
قمریاں کہتی تھیں شمشاد پہ یاہو یاہو
فاختہ کی یہ صدا سرو پہ تھی ، کو کو کو
وقت تسبیح کا تھا عشق کا دم بھرتے تھے
اپنے معبود کی سب، حمد و ثنا کرتے تھے

آئے سجادۂ طاعت پہ امامِ دو جہاں
اس طرف طبل بجا یاں ہوئی لشکر میں اذاں
وہ مصلی کہ زباں جن کی حدیث و قرآں
وہ نمازی کہ جو ایماں کے تنِ پاک کی جاں
زاہد ایسے تھے کہ ممتاز تھے، ابراروں میں
عابد ایسے تھے کہ سجدے کیے تلواروں میں

عرشِ اعظم کو ہلاتی تھیں دعائیں ان کی
وجد کرتے تھے ملک، سن کے صدائیں ان کی
وہ عمامے، وہ قبائیں، وہ عبائیں ان کی
حوریں لیتی تھیں بصد شوق بلائیں ان کی
ذکرِ خالق میں لب ان کے جو ہلے جاتے تھے
غنچے فردوس کے شادی سے کھلے جاتے تھے

کیا جوانانِ خوش اطوار تھے، سبحان اللہ
کیا رفیقانِ وفادار تھے، سبحان اللہ
صفدر و غازی و جرار تھے، سبحان اللہ
زاہد و عابد و ابرار تھے، سبحان اللہ
زن و فرزند سے فرقت ہوئی، مسکن چھوڑا
مگر احمد کے نواسے کا نہ دامن چھوڑا

اللہ اللہ عجب فوج عجب غازی تھے
عجب اسوار تھے بے مثل، عجب تازی تھے
لائقِ مدح و سزاوارِ سر افرازی تھے
گو بہت کم تھے، پہ آمادۂِ جاں بازی تھے
پیاس ایسی تھی کہ آ آ گئی جاں ہونٹوں پر
صابر ایسے تھے کہ پھیری نہ زباں ہونٹوں پر

زہد میں حضرت سلماںؔ کے برابر کوئی
دولتِ فقر و قناعت میں ابوذرؔ کوئی
صدقِ گفتار میں عمارؔ کا ہمسر کوئی
حمزۂؔ عصر کوئی مالکِ اشترؔ کوئی
ہوں گے ایسے ہی محمدؔ کے جو شیدا ہوں گے
پھر جہاد ایسا نہ ہوگا، نہ وہ پیدا ہوں گے

گو مصیبت میں تلاطم میں، تباہی میں رہے
سرکٹے پاؤں مگر راہِ الٰہی میں رہے
یوں سرافراز، وہ سب لشکرِ شاہی میں رہے
جس طرح تیغِ دو دم دستِ سپاہی میں رہے
اس مصیبت میں نہ پایا کبھی شاکی ان کو
آبرو ساقیِٔ کوثر نے عطا کی ان کو

وہ تخشع، وہ تضرع، وہ قیام اور وہ قعود
وہ تذلل وہ دعائیں وہ رکوع اور وہ سجود
یادِ حق دل میں، تو سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ درود
یہ دعا خالقِ اکبر سے کہ اے ربِ ودود
یوں لٹیں ہم کہ، نہ آل اور نہ اولاد رہے
مگر احمدؔ کے نواسے کا گھر آباد رہے

موم فولاد ہو آوازوں میں وہ سوز و گداز
اپنے معبود سے سجدوں میں عجب راز و نیاز
سر تو سجادوں پہ تھے عرش معلی پہ نماز
شیر دل منتخبِ دہر وحید و ممتاز
چاند شرمندہ ہو، چہرے متجلی ایسے
نہ امام ایسا ہوا پھر نہ مصلی ایسے

جب فریضے کو ادا کر چکے وہ خوش کردار
کس کے کمروں کو بصد شوق لگائے ہتھیار
جلوہ فرما ہوئے گھوڑے پہ شۂ عرش وقار
علمِ فوج کو عباس نے کھولا اک بار
دشت میں نکہتِ فردوس بریں آنے لگی
عرش تک اس کے پھریرے کی ہوا جانے لگی

لہر وہ سبز پھریرے کی، وہ پنجے کی چمک
شرم سے ابر میں چھپ جاتا تھا خورشید فلک
کہتے تھے صلِ علیٰ چرخ پہ اٹھ اٹھ کے ملک
دنگ تھے سب وہ سماں سے تھا سماں تا بہ فلک
کہیے پستی اسے جو اوج ہما نے دیکھا
وہ سماں پھر نہ کبھی ارض و سما نے دیکھا

اس طرح جب علمِ دلبرِ زہرا جائے
کس سے پھر معرکۂ رزم میں ٹھہرا جائے
سانپ دشمن کی نہ کیوں چھاتی پہ لہرا جائے
لہر میں تا بہ فلک جس کا پھریرا جائے
رفع شر کو، علم خیر بشر آیا تھا
سورۂ نصر پئے فتح و ظفر آیا تھا

وہ علم دار کہ جو شیرِ الٰہی کا خلف
گوہر بحرِ وفا، نیرِ دیں درِ نجف
فخرحمزہؔ سے نمودار کا جعفرؔ کا شرف
کس طرح چاند کہوں، چاند میں ہے عیب کلف
کس نے پایا وہ جو تھا جاہ و حشم ان کے لیے
یہ علم کے لیے تھے اور علم ان کے لیے

سرو شرمائے، قد اس طرح کا، قامت ایسی
اسد اللہ کی تصویر تھے، صورت ایسی
شیر نعروں سے دہل جاتے تھے ، صولت ایسی
جا کے پانی نہ پیا نہر پہ ہمت ایسی
جان جب تک تھی اطاعت میں رہے بھائی کی
تھے علم دار، مگر بچوں کی سقائی کی

وہ بہشتی نے کیا، جس کو وفا کہتے ہیں
ہم انہیں عاشقِ شاہِ شہدا کہتے ہیں
ان کو قبلہ تو انہیں قبلہ نما کہتے ہیں
جو بہادر ہیں، وہ شمشیرِ خدا کہتے ہیں
عشقِ سردار و علمدار کا افسانہ ہے
وہ چراغِ رہِ دیں ہے تو یہ پروانہ ہے

اک طرف اکبرِ مہرو سا جوانِ نایاب
کچھ جو بچپن تھا تو کچھ آمدِ ایام شباب
روشنی چہرے پہ ایسی کہ خجل ہو مہتاب
آنکھیں ایسی کہ رہا، نرگسِ شہلا کو حجاب
جس نے ان گیسوؤں میں رخ کی ضیا کو دیکھا
شبِ معراج میں، محبوبِ خدا کو دیکھا

ؔاے خوشا حسنِ رخِ یوسفِ کنعانِ حسن
ؔراحتِ روحِ حسین، ابن علی، جانِ حسن
ؔجسم میں زورِ علی، طبع میں احسانِ حسن
ؔہمہ تن خلقِ حسن، حسنِ حسن، شانِ حسن
تن پہ کرتی تھی نزاکت سے گرانی پوشاک
کیا بھلی لگتی تھی بچپن میں سہانی پوشاک

اللہ اللہ اسدِ حق کے نواسوں کا جلال
چاند سے چہروں پہ بل کھائے ہوئے زلفوں کے بال
نیمچے کاندھوں پہ رکھے ہوئے، مانندِ ہلال
گرچہ بچپن تھا، پہ رستم کو سمجھتے تھے وہ زال
صف سے گھوڑوں کو بڑھا کر جو پلٹ جاتے تھے
مورچے لشکرِ کفار کے ہٹ جاتے تھے

آستینوں کو چڑھائے ہوئے آمادۂ جنگ
وہی سارا اسد اللہ کا نقشہ، وہی ڈھنگ
سرخ چہرے تھے کہ شیروں کا یہی ہوتا ہے رنگ
ولولہ صف کے الٹنے کا، لڑائی کی امنگ
جسم پر تیر چلیں، نیزۂ خونخوار چلے
شوق اس کا تھا کہ جلدی کہیں تلوار چلے

یک بیک طبل بجا فوج میں گرجے بادل
کوہ تھراے، زمیں ہل گئی گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے تلواروں کے پھل
مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکلِ اجل
واں کے چاؤش بڑھانے لگے دل لشکر کا
فوجِ اسلام میں نعرہ ہوا یا حیدر کا

شور میدانیوں میں تھا، کہ دلیرو نکلو!
نیزہ بازی کرو، رہواروں کو پھیرو نکلو!
نہر قابو میں ہے، اب پیاسوں کو گھیرو نکلو!
غازیو! صف سے بڑھو غول سے شیرو نکلو!
رستمو! دادِ وغا دو، کہ یہ دن داد کا ہے
سامنا حیدر کرار کی اولاد کا ہے

شور سادات میں تھا، یا شۂ مرداں مددے
کعبۂ دیں مددے، قبلۂ ایماں مددے
قوتِ بازوئے پیغمبرِ ذی شاں مددے
دم تائید ہے، اے فخرِ سلیماں مددے
تیسرا فاقہ ہے، طاقت میں کمی ہے مولا!
طلب قوتِ ثابت قدمی ہے مولا!

پیاس میں حرف نہ شکوے کا زباں پر لائیں
دم بدم سینوں پہ فاقوں میں سنانیں کھائیں
دل نہ تڑپے، جو دمِ نزع نہ پانی پائیں
تیرے فرزند کی تائید کریں، مرجائیں
لاشے مقتل میں ہوں لاشِ شہ دلگیر کے پاس
سر ہوں نیزے پہ سرِ حضرتِ شبیر کے پاس

سامنے بڑھ کے یکایک صفِ کفار آئی
جھوم کر تیرہ گھٹا، تاروں پہ اک بار آئی
روزِ روشن کے چھپانے کو شبِ تار آئی
تشنہ کاموں کی طرف، تیروں کی بوچھار آئی
ہنس کے منہ بھائی کا شاہِ شہدا نے دیکھا
اپنے آقا کو بہ حسرت رفقا نے دیکھا

عرض عباسؔ نے کی جوش ہے جراروں کو
تیر سب کھاتے ہیں، تولے ہوئے تلواروں کو
میہمانوں کا نہیں پاس، ستمگاروں کو
مصلحت ہو تو رضا دیجیے، غمخواروں کو
رو سیاہوں کو مٹا دیں کہ بڑھے آتے ہیں
ہم جو خاموش ہیں وہ منہ پہ چڑھے آتے ہیں

یہی ہنگامہ رہا صبح سے، تا وقتِ زوال
لاش پر لاش گری، بھر گیا میدانِ قتال
سرخرو خلق سے اٹھے، اسد اللہ کے لال
مورچے سب تہہ و بالا تھے، پرے سب پامال
کھیت ایسے بھی کسی جنگ میں کم پڑتے ہیں
جو لڑا سب یہی سمجھے کہ علی لڑتے ہیں

قاسم و اکبر و عباس کا اللہ رے جہاد
غل ہر اک ضرب پہ تھا اب ، ہوئی دنیا برباد
الاماں کا تھا کہیں شور کہیں تھی فریاد
دے گئے خلق میں مردانگیٔ حرب کی داد
گو وہ دنیا میں نہیں، عرش مقام ان کا ہے
آج تک عالمِ ایجاد میں نام ان کا ہے

دوپہر میں وہ چمن بادِ خزاں نے لوٹا
پتا پتا ہوا تاراج تو بوٹا بوٹا
باپ بیٹے سے چھٹا، بھائی سے بھائی چھوٹا
ابنِ زہراؔ کی کمر جھک گئی بازو ٹوٹا
پھر سے نہ یاور، نہ وہ جاں باز نہ وہ شیدا تھے
ظہر کے وقت حسینؔ ابنِ علی تنہا تھے

ساتھ جو جو کہ بہادر تھے، وطن سے آئے
سامنے سوتے تھے ریتی پہ سنائیں کھائے
دھوپ میں پیاس سے مثلِ گلِ تر مرجھائے
مرگئے پر نہ غریبوں نے کفن تک پائے
دھوپ پڑتی تھی یہ دن چرخ نے دکھلایا تھا
نہ تو چادرتھی کسی لاش پہ نے سایا تھا

صاحبِ فوج پہ طاری تھا عجب رنج و ملال
زرد تھا رنگ، تو آنکھیں تھیں لہو رونے سے لال
کبھی بھائی کا الم تھا، کبھی بیٹے کا خیال
کبھی دھڑکا تھا کہ لاشیں نہ کہیں ہوں پامال
کبھی بڑھتے تھے وغا کو، کبھی رک جاتے تھے
سیدھے ہوتے تھے کبھی، اور کبھی جھک جاتے تھے

بڑھ کے چلاتے تھے بے درد کہ اب آپ آئیں
جوہر تیغِ شہنشاہِ نجف دکھلائیں
مرنے والے نہیں جیتے جو سنائیں کھائیں
کاٹ لیں آپ کا سر تن سے تو فرصت پائیں
پسرِ سعد سے وعدہ ہے، صلا لینے کا
حکم ہے خیمۂ اقدس کے جلا دینے کا

شہ نے فرمایا، مجھے خود ہے شہادت منظور
نہ لڑائی کی ہوس ہے، نہ شجاعت کا غرور
جنگ منظور نہ تھی ان سے پہ اب ہوں مجبور
خیر، لڑ لو کہ ستاتے ہیں یہ بے جرم و قصور
ذبح کرنے کے لیے لشکرِ ناری آئے
کہیں جلدی مرے سر دینے کی باری آئے

حکم پانا تھا کہ شیروں نے اڑائے تازی
مثل شہباز گیا ایک کے بعد اک غازی
واہ ری حرب، خوشا ضرب، زہے جانبازی
اڑ گیا ہاتھ بڑھا جو پئے دست اندازی
لوٹتے رن میں سر و جسم نظر آتے تھے
ایک حملے میں قدم فوج کے جم جاتے تھے

جس پہ غصہ میں گئے صید پہ شہباز گرا
یہ کماں کٹ کے گری، وہ قدر انداز گرا
جب گرا خاک پہ گھوڑے سے، تو ممتاز گرا
نہ اٹھا پھر کبھی، جو تفرقہ پرداز گرا
ہاتھ منہ کٹ گئے، سر اڑ گئے جی چھوٹ گئے
مورچے ہو گئے پامال، پرے ٹوٹ گئے

بعد غیروں کے عزیزوں نے کیا عزمِ نبرد
سر کو نہیوڑا کے بھرا سبطِ نبیؐ نے دم سرد
ہوک اٹھی کبھی سینے میں، تو دل میں کبھی درد
سرخ ہوتا تھا کبھی چاند سا چہرہ کبھی زرد
کوئی گل رو تو کوئی سرو سہی بالا تھا
وہ بچھڑنے لگے، گودی میں جنہیں پالا تھا

زلفوں والا تھا کوئی، کوئی مرادوں والا
کوئی بھائی کا پسر، کوئی بہن کا پالا
چاند سا منہ جو کسی کا تھا تو گیسو ہالا
کوئی قامت میں بہت کم کوئی قد میں بالا
نوجواں کون سا خوش رو و خوش انداز نہ تھا
کتنے ایسے تھے کہ سبزہ ابھی آغاز نہ تھا

ہاتھ وہ بچوں کا، اور چھوٹی سی وہ تلواریں
موم کردیتی تھیں فولاد کہ جن کی دھاریں
آب ہو شیر کا زہرہ ہے، جسے وہ للکاریں
بجلیاں کوند رہی ہیں کسے نیزہ ماریں
کس بشاشت سے ہزاروں یہ، دلیر آتے ہیں
بچے آتے ہیں کہ بپھرے ہوئے شیر آتے ہیں

شہ نے فرمایا کہ سر کاٹ لو، حاضر ہوں میں
نہ تو لڑنے میں، نہ مرجانے میں قاصر ہوں میں
فوج بھی اب نہیں بے یاور و ناصر ہوں میں
شہر و صحرا بھی تمہارا ہے، مسافر ہوں میں
لوٹ لو پھونک دو، تاراج کرو بہتر ہے
کلمہ گویو! یہ تمہارے ہی نبی کا گھر ہے

کئی سیدانیاں خیمے میں ہیں پردے والی
جن کا رتبہ ہے زمانے میں ہر اک پر حالی
اب نہ وارث کوئی سر پر ہے، نہ کوی والی
ان کو دیجو! کوئی رہ جائے جو خیمہ خالی
یہ نبی زادیاں بے پردہ نہ ہوئیں جس میں
ایک گوشہ ہو کہ سب بیٹھ کے روئیں جس میں

سن کے ان باتوں کا اعدا نے دیا جو کہ جواب
گر لکھوں اس کو تو ہو جائے جگر سنگ کا آب
قلب تھرا گیا ہر گز نہ رہی ضبط کی تاب
دیکھ کر رہ گئے گردوں کو، شۂ عرش جناب
اشک خالی اسے کرتے ہیں جو دل بھر آئے
آپ رونے کے لیے خیمے کے در پر آئے

تھم کے چلائے کہ اے زینبؑ و ام کلثوم
تم سے رخصت کو پھر آیا ہے حسینِ مظلوم
آ مرے قتل کے درپے ہے یہ سب لشکرِ شوم
ہاں جگادو اسے غش ہو جو سکینہ معصوم
نہیں ملتا جو زمانے سے گزر جاتا ہے
کہہ دو عابدؔ سے کہ مرنے کو پدر جاتا ہے

یہ صدا سن کے حرم خیمے سے، مضطر دوڑے
شہ کی آواز پہ سب بے کس و بے پر دوڑے
گر پڑیں سر سے ردائیں تو کھلے سر دوڑے
بچے روتے ہوئے ماؤں کے برابر دوڑے
رو کے چلائی سکینہ شہ والا آؤ!
میں تمہیں ڈھونڈتی تھی، دیر سے بابا آؤ!

آؤ اچھے مرے بابا، میں تمہاری واری
دیکھو تم بن ہیں گلے تک مرے آنسو جاری
آج یہ کیا ہے کہ بھولے مرے خاطر داری
ہاتھ پھیلا کے کہو! آ مری بیٹی پیاری
منہ چھپانے کی ہے کیا وجہ نہ شرماؤ تم
اب میں پانی بھی نہ مانگوں گی، چلے آؤ تم

دیکھ کر پردہ سے یہ کہنے لگی، زینبِؑ زار
ابنِ زہراؔ تری مظلومی و غربت کے نثار
آؤ چادر سے کروں پاک، میں چہرے کا غبار
شہ نے فرمایا، بہن مر گئے سب مونس و یار
تم نے پالا تھا جسے، ہم اسے رو آئے ہیں
علی اکبرؑ سے جگر بند کو کھو آئے ہیں

منہ دکھائیں کسے، سب سے ہے ندامت زینبؔ
گھر میں آنے کی نہیں، بھائی کو مہلت زینبؔ
کھینچ لائی ہے سکینہ کی محبت زینبؔ
بھائی جاتا ہے، دکھا دو ہمیں صورت زینبؔ
نہ تو سر کھولو، نہ منہ پیٹو، نہ فریاد کرو
بھول جاؤ ہمیں، اللہ کو اب یاد کرو

صبر سے خوش ہے خدا، اے مری غم خوار بہن
سہل ہوجاتا ہے، جو امر ہو دشوار بہن
اپنی ماں کا ہے طریقہ، تمہیں درکار بہن
پھر میں کہتا ہوں سکینہ سے خبردار بہن
ناز پرور ہے مرے بعد الم اس پہ نہ ہو
بُندے کانوں سے اتارو کہ ستم اس پہ نہ ہو

کہیو عابد سے یہ پیغام مرا بعد سلام
غش تھے تم پھر گئے دروازے تلک آ کے امام
قید میں پھنس کے نہ گھبرائیو اے گل اندام
کاٹیو صبر و رضا سے، سفرِ کوفہ و شام
ناؤ منجدھار میں ہے شور طلاطم جانو!
نا خدا جاتا ہے، گھر جانے اور اب تم جانو!

کہہ کے یہ باگ پھرآئی طرفِ لشکرِ شام
پڑ گیا خیمۂ ناموس نبی میں کہرام
رن میں گھوڑے کو اڑاتے ہوئے آئے جو امام
رعب سے فوج کے دل ہل گئے کانپے اندام
سر جھکے ان کے جو کامل تھے زباں دانی میں
اڑ گئے ہوش فصیحوں کے رجز خوانی میں

تھا یہ نعرہ کہ محمد کا نواسا ہوں میں
مجھ کو پہچانو! کہ خالق کا شناسا ہوں میں
زخمی ہونے سے نہ مرنے سے ہراسا ہوں میں
تیسرا دن ہے یہ گرمی میں کہ پیاسا ہوں میں
چین کیا چیز ہے، آرام کسے کہتے ہیں؟
اس پہ شکوہ نہیں کچھ، صبر اسے کہتے ہیں

اس کا پیارا ہوں جو ہے ساقیِٔ حوضِ کوثر
اس کا بیٹا ہوں، جو ہے فاتحِ بابِ خیبر
اس کا فرزند ہوں کی جس نے مہم بدر کی سر
اس کا دلبر ہوں میں، دی جس کو نبی نے دختر
صاحبِ تخت ہوئے، تیغ ملی، تاج ملا
دوش احمدؔ پہ انہیں رتبۂ معراج ملا

بے وطن ہوں نہ مسافر کو ستاؤ اللہ
قتل کیوں کرتے ہو تم، کون سا میرا ہے گناہ
اب نہ یاور ہے کوئی ساتھ نہ لشکر نہ سپاہ
تم کو لازم ہے غریبوں پہ ترحم کی نگاہ
ہاتھ آئے گا نہ انعام، نہ زر پاؤگے
یاد رکھو! مرا سر کاٹ کے پچھتاؤگے

نہ بھی ختم ہوئی تھی یہ مسلسل تقریر
حجت اللہ کے فرزند پہ چلنے لگے تیر
چوم کر تیغ کے قبضے کو پکارے شبیر
لو خبردار! چمکتی ہے علیؔ کی شمشیر
پسرِ فاتحِ صفین و حنین آتا ہے
لو صفیں باندھ کے روکو تو حسینؔ آتا ہے

لو کھنچو تیغِ دوسر، فوج پہ آفت آئی
لو ہلا، قائمۂ عرش، قیامت آئی
فتح تسلیم کو، آداب کو نصرت آئی
فخر سے غاشیہ برداری کو شوکت آئی
چوم لوں پاؤں، جلال اس تگ و دو میں آیا
ہاتھ جوڑے ہوئے اقبال جلو میں آیا

آپ سیدھے جو ہوئے رخش نے بدلے تیور
دونوں آنکھیں ابل آئیں کہ ڈرے بانیِٔ شر
تھوتھنی مل گئی سینے سے کیا، دُم کو چنور
مثلِ طاؤس اڑا، گاہ اِدھر، گاہ اُدھر
دم بدم گرد نسیمِ سحری پھرتی تھی
جھوم کر پھرتا تھا، گویا کہ پری پھرتی تھی

ابر ڈھالوں کا اٹھا تیغِ دو پیکر چمکی
برق چھپتی ہے، یہ چمکی تو برابر چمکی
سوئے پستی کبھی کوندی، کبھی سر پر چمکی
کبھی انبوہ کے اندر، کبھی باہر چمکی
جس طرف آئی وہ ناگن اسے ڈستے دیکھا
مینہ سروں کا صفِ دشمن میں برستے دیکھا

دھار ایسی کی رواں ہوتا ہے دھارا جیسے
گھاٹ وہ گھاٹ کہ دریا کا کنارا جیسے
چمک ایسی کہ حسینوں کا اشارا جیسے
روشنی وہ کہ گرے ٹوٹ کے تارا جیسے
کوندنا برق کا شمشیر کی ضو میں دیکھا
کبھی ایسا نہیں دم خم مہ نو میں دیکھا

اک اشارے میں، برابر کوئی دو تھا کوئی چار
نہ پیادہ کوئی بچتا تھا سلامت نہ سوار
برق گرتی تھی کہ چلتی تھی صفوں پر تلوار
غضب اللہ علیہم کے عیاں تھے آثار
موت ہر غول کو برباد کیے جاتی تھی
آگ گھیرے ہوئے دوزخ میں لیے جاتی تھی

تیغیں آری ہوئی ڈھالوں کے اڑے پرکالے
بند سب بھول گئے خوف سے نیزوں والے
جو بڑھے ہاتھ سرِ دست قلم کر ڈالے
تیغ کہتی تھی، یہ سب ہیں مرے دیکھے بھالے
صف بہ صف باندھ کے نیزوں کو عبث تولے ہیں
ایسے عقدے مرے ناخن نے بہت کھولے ہیں

جب کبھی جائزۂِ فوج ستم لیتی ہوں
موت سے رحم نہ کرنے کی قسم لیتی ہوں
دو زبانوں سے سدا کارِ قلم لیتی ہوں
چہرے کٹ چکتے ہیں، لشکر کے تو دم لیتی ہوں
ہر طرف ہو کے، عدم کے سفری ہوتے ہیں
طبقلیں کٹتی ہیں، چہرے نظری ہوتے ہیں

وہ برش وہ چمک اس کی وہ صفائی اس کی
کسی تلوار نے تیزی نہیں پائی اس کی
اس کا بازو جو اڑایا، تو کلائی اس کی
مل گئی جس کے گلے سے اجل آئی اس کی
صورتِ مرگ کسی نے بھی نہ آتے دیکھا
سر پہ چمکی تو کمر سے اسے جاتے دیکھا

کبھی ڈھالوں پہ گری اور کبھی تلواروں پر
پیدلوں پر کبھی آئی کبھی اسواروں پر
کبھی ترکش پہ رکھا منہ، کبھی سوفاروں پر
کبھی سر کاٹ کے آ پہنچی کمانداروں پر
گر کے اس غول سے اٹھی تو اس انبوہ میں تھی
کبھی دریا میں، کبھی بر میں، کبھی کوہ میں تھی

کبھی چہرہ کبھی شانہ، کبھی پیکر کاٹا
کبھی در آئی جگر میں، تو کبھی سر کاٹا
کبھی مغفر، کبھی جوشن، کبھی بکتر کاٹا
طول میں راکب و مرکب کا برابر کاٹا
برشِ تیغ کا غسل، قاف سے تا قاف رہا
پی گئی خون ہزاروں کا، پہ منہ صاف رہا

نہ رکی خود پہ وہ، اور نہ سر پر ٹھہری
نہ کسی تیغ پہ دم بھر، نہ سپر پر ٹھہری
نہ جبیں پر نہ گلے پر، نہ جگر پر ٹھہری
کاٹ کر زین کو، گھوڑے کی کمر پر ٹھہری
جان گھبرا کے تنِ دشمنِ دیں سے نکلی
ہاتھ بھر ڈوب کے تلوار، زمیں سے نکلی

کٹ گئی، تیغ تلے جب صفِ دشمن آئی
یک بیک فصلِ فراقِ سر و گردن آئی
بگڑی اس طرح لڑائی کہ نہ کچھ بن آئی
تیغ کیا آئی کہ اڑتی ہوئی ناگن آئی
غل تھا بھاگو کہ یہ ہنگام ٹھہرنے کا نہیں
زہر اس کا جو چڑھے گا تو اترنے کا نہیں

وہ چمک اس کی، سروں کا وہ برسنا، ہرسو
گھاٹ سے تیغ کے، اک حشر بپا تھا لبِ جو
آب میں صورت آتش تھی، جلا دینے کی خو
اور دم بڑھتا تھا، پیتی تھی جو اعدا کا لہو
کبھی جوشن، تو کبھی صدرِ کشادہ کاٹا
جب چلی ضربتِ سابق سے زیادہ کاٹا

تنِ تنہا شۂ دیں لاکھ سواروں سے لڑے
بے سپر برچھیوں والوں کی قطاروں سے لڑے
صورتِ شیر خدا، ظلم شعاروں سے لڑے
دو سے اک لڑ نہیں سکتا، یہ ہزاروں سے لڑے
گر ہو غالب، تو ہزاروں پہ وہی غالب ہو
جو دل و جانِ علیؔ ابن ابی طالبؔ ہو

تیسرے فاقے میں یہ جنگ، یہ حملے یہ جدال
پیاس وہ پیاس کہ نیلم تھے سراسرلب لعل
دھوپ وہ دھوپ کہ سوکھے ہوئے تھے تازہ نہال
لُو وہ لُو جس کی حرارت سے پگھلتے تھے جبال
سنگ ریزوں میں، تب و تاب تھی انگاروں کی
سر پہ یا دھوپ تھی، یا چھاؤں تھی تلواروں کی

شیر سے تھے کبھی جنگل میں، ترائی میں کبھی
ڈھال کو چہرے پہ روکا نہ لڑائی میں کبھی
تیغ حیدر نے کمی کی نہ صفائی میں کبھی
فرق آیا نہ سر و تن کی جدائی میں کبھی
کبھی ابرو کا بھی ایسا نہ اشارا دیکھا
جس پہ اک وار کیا اس کو دوبارا دیکھا

آنکھ وہ آنکھ کہ شیروں کی جلالت جس میں
رخش وہ رخش، کہ سب برق کی سرعت جس میں
تیغ وہ تیغ، عیاں موت کی صورت جس میں
ہاتھ وہ ہاتھ، ید اللہ کی طاقت جس میں
روک لے دار، جگر کیا کسی بے پیر کا ہے
زور وہ، جس میں اثر فاطمہؔ کے شیر کا ہے

جنگ میں پیاس کا صدمہ شۂ دیں سے پوچھو
تنِ تنہا کی وغا، لشکرِ کیں سے پوچھا
زلزلہ دشت پر آفت کا، زمیں سے پوچھو
ضربِ شمشیر دو سر، روحِ امیں سے پوچھو
باپ اس فوج میں تنہا، پسر اس لشکر میں
کربلا میں یہ تلاطم ہوا، یا خیبر میں

اسد اللہ کے صدقے، شہ والا کے نثار
وہی حملے تھے، وہی زور، وہی تھی تلوار
فتحِ حیدر نے کیا جنگ میں خیبر کا حصار
مورچے فوج کے، حضرت نے بھی توڑے کئی بار
کیوں نہ ہو احمدِ مرسل کے نواسے تھے حسینؔ
فرق اتنا تھا کہ دو روز کے پیاسے تھے حسینؔ

ہر طرف فوج میں غل تھا کہ دہای مولا!
ہم نے دیکھی ترے ہاتھوں کی صفائی مولا!
الاماں خوب سزا جنگ کی پائی مولا!
آپ کرتے ہیں بروں سے بھی بھلائی مولا!
ہاتھ ہم باندھتے ہیں پھینک کے شمشیروں کو
بخشیے امتِ نا اہل کی تقصیروں کو

آتی ہاتف کی یہ آواز کہ اے عرشِ مقام
یہ وغا تیسرے فاقے میں، بشر کا نہیں کام
اے محمدؔ کے جگر بند، امام ابنِ امام
لوحِ محفوظ پہ مرقوم ہے، صابر ترا نام
اب نہیں حکم لعینوں سے وغا کرنے کا
ہاں! یہی وقت ہے وعدے کے وفا کرنے کا

آج ہے آٹھوں بہشتوں کی نئی تیاری
نخل سرسبز ہیں فردوس میں نہریں جاری
شب سے حوریں ہیں مکلل بجواہر ساری
خانۂ دوست میں ہے، دوست کی مہانداری
پیشوائی کو رسول الثقلین آتے ہیں
عرش تک شور یہی ہے کہ حسینؔ آتے ہیں

تھم گئے سن کے یہ آواز شۂ جن و بشر
روک کر تیغ کو فرمایا کہ حاضر ہے یہ سر
عید ہو جلد اگر ذبح کریں بانیِ شر
شمرِؔ اظلم ہے کدھر؟ کھینچ کے آئے خنجر
ہے وہ عاشق جو فدا ہونے کو موجود رہے
بس مری فتح یہی ہے کہ وہ خوشنود رہے

کہہ کے یہ میان میں مولا نے رکھی تیغِ دو دم
ہاتھ اٹھا کر یہ اشارہ کیا گھوڑے کو کہ تھم
رہ گیا سر کو جھکا کر فرسِ تیز قدم
چار جانب سے مسافر پہ چلے تیرِ ستم
نیزے یوں گرد تھے جسے گلِ تر خاروں میں
گھر گئے سبطِ نبی، ظلم کی تلواروں میں

پہلے تیروں سے کمانداروں نے چھاتی چھانی
نیزے پہلو پہ لگاتے تھے ستم کے بانی
سر پہ تلواریں چلیں، زخمی ہوئی پیشانی
خوں سے تر ہو گیا حضرت کا رخِ نورانی
جسم سب چور تھا، پرزے تھے زرہ جامے کے
پیچ کٹ کٹ کے کھلے جاتے تھے عمامے کے

برچھیاں مارتے تھے، گھاٹ پہ جو تھے پہرے
کس طرف جائے، کہاں تیغوں میں بیکس ٹھہرے
ایک ہزار اور کوئی سو زخم تھے تن پر گہرے
دیکھنے والوں کے ہو جاتے تھے، پانی زہرے
خوں میں ڈوبا ہوا وہ مصحفِ رخ سارا تھا
جزو ہر اک تن شبیر کا سی پارا تھا

ہاتھ سے باگ جدا تھی، تو رکابوں سے قدم
غش میں سیدھے کبھی ہوتے تھے فرس پر کبھی خم
بہتے تھے پہلوؤں سے، خوں کے دڑیڑے پیہم
کوئی بیکس کا مددگار نہ تھا ہائے ستم
مارے تلواروں کے مہلت تھی نہ دم لینے کی
کوششیں ہوتی تھیں کعبے کے گرادینے کی

دشت سے آتی تھی زہراؔ کی صدا ہائے حسینؔ
میرے بیکس، میرے بے بس، مرے دکھ پائے حسینؔ
در سے چلاتی تھی زینبؔ مرے ماں جائے حسینؔ
کون تیغوں سے بچا کر تجھے لے آئے حسینؔ
فاطمہؔ رو رہی ہیں، ہاتھوں سے پہلو تھامے
حکم گر ہو تو بہن دوڑ کے بازو تھامے

ہائے سیدا ترا تن اور ستم کے بھالے
کس کو چلاؤں کہ جیتے نہیں مرنے والے
اس پہ یہ ظلم دکھوں سے جسے زہراؔ پالے
کون سر سے ترے تلواروں کی آفت ٹالے
کون فریاد سنے بے سر و سامانوں کی
یاں تو بستی بھی نہیں کوئی مسلمانوں کی

نہ رہا جب کہ ٹھہرنے کا فرس پر یارا
گرپڑا خاک پہ، وہ عرش خدا کا تارا
غش سے کچھ دیر میں چونکا جو علیؔ کا پیارا
نیزہ سینے پہ، سناں ابنِ انس نے مارا
واں تو نیزے کی انی پشت سے باہر نکلی
یاں بہن خیمے کی ڈیوڑھی سے کھلے سر نکلی

کھینچ کر سینے سے نیزہ جو ہٹا دشمنِ دیں
جھک کے حضرت نے رکھی خاک پہ سجدے میں جبیں
تیز کرتا ہوا خنجر کو بڑھا شمر لعیں
آسماں ہل گئے تھرا گئی مقتل کی زمیں
کیا کہوں تیغ کو کس طرح گلے پر رکھا
پاؤں قرآں پہ رکھا، حلق پہ خنجر رکھا

ڈھانپ کر ہاتھوں سے منہ بنتِ علی چلائی
ذبح ہوتے ہو مرے سامنے ہے ہے بھائی
ضربِ اول تھی کہ تکبیر کی آواز آئی
گر پڑی خاک پہ غش کھا کے علی کی جائی
آنکھ کھولی تھی کہ ہنگامۂ محشر دیکھا
سر اٹھایا تو سرِ شہ کو سناں پر دیکھا

رو کے چلائی کہ ہے ہے ہمرے مظلوم حسینؔ
فوجِ اعدا میں، ترے قتل کی ہے دھوم حسینؔ
کچھ مجھے آنکھوں سے ہوتا نہیں معلوم حسینؔ
ہائے میں رہ گئی دیدار سے محروم حسینؔ
مڑ کے دیکھو کہ مصیبت میں پڑی ہوں بھائی
ننگے سر بلوۂ اعدا میں کھڑی ہوں بھائی

بس انیسؔ آگے نہ لکھ زینبِ ناشاد کے بین
قتل ہو جانے پہ بھی دھوپ میں تھی لاشِ حسینؔ
قبر میں بھی نہ ملا احمدِؔ مختار کو چین
گھر جلا، قید ہوئی، آلِ رسول الثقلین
کتنے گھر شاہ کے مر جانے سے برباد ہوئے
لٹ گئے یوں کہ نہ سادات پھر آباد ہوئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.