Jump to content

نقاد پر غیرستایشی جنبش لب

From Wikisource
نقاد پر غیرستایشی جنبش لب
by مہدی افادی
319480نقاد پر غیرستایشی جنبش لبمہدی افادی

اردو میں لائق قدر رسالے اس قدر کم ہیں کہ کوئی مفید اضافہ دراصل لٹریچر کی خدمت ہے، جس کا اعتراف نہ کرنا خود انشا پردازی کی حق تلفی ہے، حضرت دلگیر نے نقاد سے آگرہ کی لٹریری تاریخ میں ایک ضروری صفحہ بڑھایا ہے، جس کی واقعی کمی تھی، کسی زمانہ میں یہاں سے ’’تیرہویں صدی‘‘، ’’زمانہ‘‘ اور ’’فسانۂ ایام‘‘ اچھے اچھے پرچے نکلے، آج ان میں سے ایک بھی نہیں، صرف یاد ایام رہ گئی۔کائنات میں کوئی چیز تلف نہیں ہوتی، صرف بدلتی رہتی ہے۔ ہم نقاد کو بھی گذشتہ رسائل کا خلف ارتقائی سمجھتے ہیں، یہ بھی اسی مٹی سے اپنا خمیر لے کر اٹھا ہے جہاں اس کے بڑوں کی ہڈیاں دبی پڑی ہیں، اس لئے ضرور ہے کہ رگوں میں، رگوں کے دوڑتے ہوئے خون میں جوہر شرافت بھی ہو جو وراثتاً دلگیر کے لٹریری بچے کا حق ہے، جس کی نسبت میں صرف حوصلہ افزا خیالات رکھتا ہوں۔دلگیر صوفی صافی ہیں اور وسیع دائرۂ احباب رکھتے ہیں۔ اس لئے خیال تھا ان کے ادبی مقاصد سے ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد خاصی ہوگی اور میں خوش ہوں کہ یہ خیال غیر صحیح نہیں نکلا، لیکن الناظر میں احسن صاحب مارہروی کے خیالات دیکھ کر مجھے نقاد کی کامیابی کی طرف سے ایک طرح کا اطمینان ہو گیا ہے۔ کل کے بچہ کی بساط ہی کیا؟ لیکن حاسدانہ نگاہیں پڑنے لگیں اور وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ کہ کوئی برائی نہیں جو ’نقاد‘ کے سر نہ لگائی گئی ہو۔میرا خیال ہے دوم درجہ کی خلقت عموماً قابل نفرت ہوتی ہے اور زیادہ تر اس کا جہل مرکب جس میں تنگ نظری اور تنقیص بے جا کے سوا منصفانہ تنقید یعنی شائستگی کا کوئی عنصر نہیں ہوتا۔ حضر ت مارہروی نے ’فلسفہ حسن وعشق‘ کا بھی خاکہ اڑایا ہے اور اسی پر سارا زور ہے۔ ان کا علوم مشرقی ومغربی دونوں سے ’’امی محض‘‘ ہونا ان کی کافی سفارش تھی کہ میں ان کے مقابلہ تضییع اوقات پسند نہ کرتا، لیکن چونکہ لٹریچر کی حق تلفی کی گئی ہے اس لئے ان کے کانوں تک مجھے دست شوق نہ سہی اپنی آواز تو پہونچانی ہی پڑےگی۔فلسفۂ حسن کے خیالات کا زیادہ تر حصہ، حضرت کو یہ سن کر مایوسی ہوگی کہ ذینو فن کے ’’مقالات غیرفانی‘‘ سے ماخود ہے جو سقراط کا شاگرد رشید تھا۔ یونانیوں میں مذاق حسن اس قدر رچا ہوا تھا کہ وہ عورت اور حسن کو مترادف سمجھتے تھے، ان کے جذبات کی نفاست کے اندازے سے آج ہم بھی قاصر ہیں، عورت اور اس کے لطیف متعلقات کی نسبت ان کی نازک خیالیاں اتنی اچھوتی اور دنیا سے نرالی تھیں کہ ہم اپنی زبان میں ادائے خیال کے لئے الفاظ نہیں پاتے، یہی جذبات و خیالات بتدریج ترقی کرکے ان کی زندگی کے تمام صیغوں میں سرایت کر گئے جن سے رفتہ رفتہ ان فنون نفیسہ کی بنیاد پڑی جو آج مہذب سے مہذب ملک کے لئے سرمایۂ فخر ہیں۔ نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی نے اپنے فصیح ایڈریس میں جو علی گڑھ ایجوکیشن کانفرنس میں دیاگیاتھا، نہایت صحیح فرمایا تھا کہ مسلمانوں نے اہل یونان کے مذاق حسن پرستی اور جذبات نفیسہ سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا اور جو کچھ اخذ کر سکے وہ یونانیوں کے خوان نعمت کی گویا چچوڑی ہوئی ہڈیاں تھیں۔یورپ نے جو جذباتی حیثیت سے یونانیوں کا شاگرد رشید ہے، ’’حسن پرستی‘‘ کو اتنی ترقی دی کہ اب اس کے استاد اس کی گرد کو بھی نہیں پہونچتے۔ مثلاً ’زہرہ‘ کو لیجئے جوحسن کی دیوی ہے، جس کی پرستش کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ بڑے بڑے فلسفی اس کے حلقۂ اثر سے بے نیاز نہیں ہیں۔ ’زہرہ‘ نہایت خوبصورت ہے، لیکن سر سے پاؤں تک ننگی! اودی اودی رگوں کے پیچ و خم جانے کہاں سے کہاں تک پہونچے ہوئے، کھلے ہوئے لمبے بالوں سے خوش آب موتیوں کے سے قطرات آب ٹپکتے ہوئے، گویا نہاد ھوکر سمندر کے کف سے پری نکلی ہے! پیکر خیالی جب اس انداز سے مجسم ہوکر لباس عریانی میں جلوہ گر ہو تو تخیل کے لئے کیا باقی رہا؟ اسی طرح مختلف جذبات کی تصویریں ہیں لیکن سب کی سب عریاں! اٹلی میں مرمری مجسمے دیکھئے، پیرس سیلنؔ کی سیر کیجئے، حسن وجذبات کی پریاں آپ کو بالکل جداگانہ عالم میں نظر آئیں گی۔ بڑے بڑے فلاسفر، شاعر، حکمائے ادب، اپنا اپنا سرمایۂ خیال ان سے اخذ کرتے ہیں، جن سے لٹریچر میں طرح طرح کی نزاکتیں پیدا ہوتی ہیں۔لیکن ہندوستان اپنی مفروضہ دماغی ترقیات کے ساتھ بھی ان باریکیوں کو سمجھ نہیں سکتا۔ یہاں چار دن ہوئے، قابلیت کا معیار یہ تھا کہ چند کتابیں پرانے سلسلۂ درس کی پڑھیں اور تیلی کے بیل کی طرح جہاں تھے وہیں رہے۔ بہت ہوا تو دوچار دیوان دیکھ ڈالے، پہلے کوئی مصرع بے غایت خود رو طریق پر موزوں کیا، پھر تک سے تک ملانے کے لئے ایک مصرع ابتدائی کی پیوند کی سوجھی، چلئے شعر ہو گیا! کچھ دنوں کے بعد اس ہیر پھیر میں اچھے خاصے شاعر ہوگئے، کچھ اور ترقی کی تو کسی اگلے پچھلے شاعر کے خواہ مخواہ جانشیں بن بیٹھے۔ جس کا یہ مَبلَغ ہو وہ ’’فلسفۂ حسن‘‘ پر جس حد تک ’’نقادی‘‘ کی صلاحیت رکھتا ہے، اسے میں اہل نظر کے ذوق سلیم پر چھوڑتا ہوں۔حضرت مارہروی کو یہ بھی خلش ہے کہ دوپٹہ، آنچل، مَحرم اور چوڑیاں، صاحب فلسفہ کے اختراعات ہیں، یونانیوں میں یہ چیزیں کہاں؟ ان کی سمجھ پر کسی کو رونا آئے تو میری خطانہیں۔ لیکن میں اپنے امی دوست کو بتانا چاہتا ہوں کہ مہوشان یونان ایک طرح کا ’’سینہ بند‘‘ استعمال کرتی تھیں جو ’’غیر تقسیمی‘‘ ہوتا تھا، تاہم وہ دستانے کی طرح جسم میں چبھ جاتاتھا، بندش کے بھی مدارج تھے، کبھی چست اور کبھی چست تر، اسی طرح لمبے اسکارف سر پر ڈالے جاتے تھے، جنھیں آپ دوپٹہ کہئے جس کے دونوں سرے سامنے پڑے ہوتے تھے۔ ایلسی بایڈیز کا قصہ پڑھئے جو یونان میں سب سے زیادہ سجیلا جوان تھا، نازنینان ایتھنس اس پر جان دیتی تھیں اور چاہتی تھیں ’’نذر شباب‘‘ ہوکر رہیں، کیونکہ ان کے خیال میں ایلسی بایڈینر کے حسن کا یہ ادنی ٹیکس تھا۔وہ جس حلقہ میں ہوتا تھا، اسکارف کو ہوا میں جنبش دی جاتی تھی، غایت یہ تھی کہ، ’’حُبابے خاستہ از بحر کافور‘‘ پر اسے نظر جمانے کا موقع ملے، اسی طرح کھلے ہوئے بال اور سیہ چوڑی بدست آں نگارے بہ شاخ صندلی پیچیدہ مارے کا بھی رواج تھا۔ صاحب فلسفہ کی یہ جدت اختراعیہ تھی کہ وہ مضمون کو اپنی زبان کی خصوصیات کے ساتھ ادا کر سکے۔ مجھ کو اصرار ہے کہ عورت کے ذکر کے ساتھ اس کے لطیف متعلقات کی تصریخ ناگزیر ہے، محرم کی جگہ ’قبا‘ کفر ہی نہیں زبانوں کا خون کرنا ہے۔ مجھ کو معلوم ہے ایشیائی شاعری اپنے جذبات میں ’مخنث‘ ہوتی ہے، لیکن جس زبان کی شاعری ’بند قبا‘ کو جائز رکھتی ہو، جس کے لائق فخر شعراء کسی ’معشوقہ‘ پر نہیں ’معشوق سبز ہ آغاز‘ (یعنی داڑھی مونچھ والے) پر فرضی اور غیرطبعی اظہار عشق کے عادی ہوں، جہاں عورت کے لئے اس کی خصوصیات کے اظہار کے ساتھ بھی فعل مذکر کے استعمال کا رواج ہو، اس زبان کے پھوہڑپن کا کیا ٹھکانا ہے؟ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ’خچریت‘ کا نام ’سنجیدگی‘ ہے۔لیکن اس معیار لطافت سے علیحدہ ہوکر اگر مغربی رنگ میں داد سخن دی جائے تو بے سمجھے بوجھے کوے کی کائیں کائیں صرف ثقل مذاق کا ثبوت ہے۔ ہمارے دوست اگر مغربی لٹریچر اور فلسفہ سے بیگانہ ہیں، اگر وہ نہیں جانتے کہ فلسفہ حسن کا ماخذ اصلی کیا ہے؟ اگر ان کے دماغ میں یہ مناسبت نہیں ہے کہ وہ ان نازک مسائل کو جذب کر سکے، اگر وہ لطائف ادبی اور غیرسنجیدہ خیالات کی حدود میں تمیز نہیں کرسکتے، مختصر یہ کہ اگر وہ نہیں جانتے کہ مغربی نزاکت خیال کیا چیز ہے؟ تو ہم ان کو ایک کافی حد تک معذور سمجھنے کے لئے تیار تھے، لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے چھچورے اور ذلیل اظہار خیال اور بے باکانہ اظہار رائے سے، جس کو خیر سے آپ تنقید سمجھتے ہیں، صرف اپنا جہل مرکب ثابت کر سکے۔ عورت سے متعلق نازک خیالی اگر ’فحش بیانی‘ ہے تو فلسفہ کی یہ ڈانٹ سن رکھئے کہ خود عورت فحش ہے اور اس سے زیادہ وہ ترکیب فحش ہے جو انسان کے عالم وجود میں آنے کا سبب ہوئی، جسے اخلاقاً میں صرف ’سنجیدگی‘ کہوں گا۔سچ یہ ہے کہ جن صاحبوں کی ابتدائی تربیت ’’چوکہ کے کوٹھوں‘‘ پرہوئی وہ ان نکتوں کو کیا سمجھ سکتے ہیں جو فلسفۂ حسن کا مایۂ خمیر ہیں، جس کی غایت ’بہار عشق‘ کی طرح نثر میں (بہائم صفت لوگوں کو شدید خواہشات کی اطفائے حرارت کے لئے برانگیختہ کرنا نہیں ہے) بلکہ شریف تر انسانوں کے سامنے جنس لطیف کو مرقع جذبات بناکر پیش کرناہے، جس میں اس کی لائق رشک مادیت کے ساتھ ہر طرح کی اخلاقی اور جذباتی صفات آنکھوں کے سامنے آجائیں، آپ فرط سنجیدگی سے اسے ’گھونگھٹ کی پردہ دری‘ کہتے ہیں، لیکن غریب کو معلوم نہیں کہ ’عالم فطرت کی سب سے خوبصورت حکمران‘ یعنی عورت کی شان اس سے بہت ارفع واعلیٰ ہے۔ عورت مادی کیفیات کے ساتھ ایک ایسا مظہر پاکیزہ ہے، جس پر خود فطرت سی لطیف چیز کو ہمیشہ ناز رہے گا۔ صرف فضائے عالم میں نکل کر دیکھئے، حجروں کی تاریکی میں اگر آپ ’شپرانہ‘ کچھ دیکھ بھی سکے تو آپ کی قاصر النظری، رازہائے سربستۂ فطرت کو پھر بھی آپ کے لئے سربہ مہر رکھےگی۔جناب مارہروی کی اس فریب کاری کو دیکھئے کہ جہاں عورت کی مادیت پر آپ جامہ سے باہر ہو گئے، اس کی اخلاقی اور جذباتی کیفیات سے جو فلسفہ کی جان ہیں، دانستہ آنکھیں پھوڑ لی ہیں۔ آپ نے اپنی پاک طینتی کا ثبوت اقتباسات پیش کردہ میں بھی دیا ہے، جو میرے خیال میں ایک طرح کی تحریف ہے، کیونکہ یہ اجزاء مختلف موقعوں سے لئے گئے ہیں اور ایک سانس میں نمایاں کرکے پیش کئے گئے ہیں اور گو فلسفہ میں ایک حرف غیرسنجیدہ نہیں، تاہم آپ کا فتویٰ یہ ہے کہ بعض حصے ’تہذیب شکن‘ ہیں۔ میں صرف ایک آدھ مثال پر قناعت کروں گا، مثلاً سینہ کی تعریف میں،’’فطرت کی شوخی دیکھئےگا! فتنۂ قیامت زا کے لئے گنجایش نکالی بھی تو کہاں؟‘‘ یہ نازک خیالی آپ کی سمجھ میں نہیں آئےگی۔ ’شکسپیر‘ زندہ ہوتا تو بتا سکتا کہ اس کے خیال کا قالب کس خوبصورتی سے بدلا گیا ہے۔ اسی طرح ’مقیاس الشباب‘ کی ترکیب پر یاد رکھئے اردو لٹریچر کو ہمیشہ ناز رہےگا۔ صاحب فلسفہ نے ایک جگہ لکھا ہے،’’آہ عورت! تو فسانۂ زندگی ہے! تو جس طرح اپنی صاف شفاف ہستی سے ایک جھونپڑے کو شیش محل بناسکتی ہے، بڑے سے بڑے ایوان عیش کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تیری موجودگی کے آثار اس میں نہ پائے جائیں، اس کے لیے چھڑوں کی جھنکار ضروری نہیں، محض تیرا پس پردہ ہونا، کہیں ہو، کسی کے لئے ہو کافی ہے۔‘‘ غور سے پڑھئے، یہ جذباتی اور اخلاقی لٹریچر کی بہتر سے بہتر مثال ہے جو اردو لٹریچر کی طرف سے پیش کی جاسکتی ہے، لیکن ہمارے دوست اسے ’فحش‘فرماتے ہیں۔ غالباً ’چھڑوں کی جھنکار‘ پر کان کھڑے کئے ہوں گے۔ ’جہل مرکب‘ اتنا تو ہو۔جناب مارہروی نے ’فلسفۂ حسن‘ کے لئے ایک نیا نام پیش کیا ہے، جو ان کے ناقابل التفات خیالات ومقالات کی گندگی کا ایک جامع ثبوت ہے، جس سے ان کے اصلی خصائل اور مذاق طبع کی پوری غمازی ہوتی ہے جس کے بعد اب مجھے درد سری کی ضرورت نہیں، لیکن وہ چوکے، جس آلہ سے وہ فلسفہ پر وار کرنا چاہتے ہیں ان کو یاد نہیں رہا، وہ ان کا ’عنوان زندگی‘ اور اس حیثیت سے ان کے لئے لائق ادب ہے کہ وہ ان کا ’مصنف ہستی‘ ہے۔ شرم! شر! اسی سلسلہ میں مختصراً ایڈیٹر صاحب ’الناظر‘ کی روانی قلم کی بھی داد دینا چاہتا ہوں۔ آپ کا ’تنقیدی نوٹ‘ تمام تر جناب مارہروی کے ’جہل مرکب‘ کا کورانہ تتبع ہے یا یوں سمجھئے کہ حضرت مارہروی کے دل کی سیاہی جو ان کے قلم سے ٹپکی تھی، حضرت نے اسی کو لے کر پھیلایا ہے، جس سے کئی صفحے رنگ گئے، آپ کا غیرضروری اظہار خیال بے معنی فصاحت کا ایک دھوکا ہے، یعنی کثرت الفاظ کے مقابلہ میں مفہوم کچھ نہیں۔ جس کی غایت صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’الناظر‘ کے ہوتے دنیا میں کسی پرچے کی ضرورت نہیں۔بہت پھیر پھار اور حشو و زوائد کا ماحصل صرف اتنا ہی ہے جو میں نے عرض کیا، اسی میں ’خادم الملک‘ (یہ اپنے منھ میاں مٹھو، ظفر الملک کا قافیہ ہے) حضرت دلگیر کا ’نقاد‘ بھی آ گیا، جس کا وجود اس کے دشمنوں کی چھاتی کا پتھر ہورہا ہے، اس کے بعد آپ ’فلسفۂ حسن‘ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اورانشا پردازی کا دریا بہایا گیا ہے، لیکن مجتہدانہ ایک حرف نہیں، اندھے کی لاٹھی! جناب مارہروی کے ساتھ کبھی غار میں کبھی دلدل میں۔بڑی نرمی سے فرماتے ہیں ، ’’جنس لطیف کے عضو عضو کی تشریح اور اس پر سرجری کا عمل کیا گیا ہے۔‘‘ فقرہ تو اچھا ہے لیکن دیکھئے پھر وہی بے معنی فصاحت کا دھوکا! ’فلسفۂ حسن‘ میں اگر میں غلطی نہیں کرتا تو صرف ’بہترین عطیۂ فطرت‘ یعنی عورت کے سینہ کے متعلق مغربی خیالات کا چربہ اتارا گیا تھا اور ادائے خیال کے مختلف پہلو دکھائے گئے تھے، جس کی نزاکت کو آپ سمجھ بھی نہیں سکے، تاہم لائق شرم غلط بیانی سے آپ نہیں چوکے اور جناب مارہروی کے ساتھ مجبوراً مجھے آپ کی بھی خبر لینی پڑی۔لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتاہوں کہ مفروضہ نقائص کے ساتھ بھی ’نقاد‘ کا معیاراخلاق ’الناظر‘ سے گھٹا ہوا نہیں ہے۔ حضرت کو یاد ہوگا! الناظر میں کبھی ایک مضمون نکلا تھا، جس میں عورت کی نسبت یہ دکھایا گیا تھاکہ وہ عصمت فروش اور بے وفا ہی نہیں بلکہ بدترین مخلوقات ارضی ہے۔ جس وسعت کے ساتھ اس شرمناک موضوع پر قلم فرسائی کی گئی تھی، وہ آپ کی اور جناب مارہروی کی متفقہ ہزلیات سے بھی کچھ بڑھی ہوئی تھی۔لکھنؤ میں بیٹھ کر ’ڈولی میں سارا شہر‘ صرف الناظر کاحصہ تھا۔ برخلاف اس کے نقاد آگرہ ’جنس لطیف‘ کو اپنے مختص النوع خصائص کے ساتھ اس طرح پیش کرسکا کہ وہ اس عالم کی چیز نہیں معلوم ہوتی، اس نے جذبات کے جتنے پہلو دکھائے ہیں، وہ بجائے خود فلسفۂ ادب کی جان ہیں جس کا ایک حرف بھی میرے خیال میں چھوڑنے کے لائق نہیں تھا۔آخر میں مجھے حضرت دلگیر سے یہ کہنا ہے کہ جہاں ادبیات کا سرے سے مذاق نہ ہو، وہاں اتنے نازک خیالات کا پیش کرنا صاحب فلسفہ سے زیادہ دلگیر کی غلطی تھی، غلطی پر غلطی یہ ہوئی کہ یہ مضمون آب و تاب کے ساتھ ایڈیٹر کی طرف سے پیش کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کم بین طبائع ضبط نہ کرسکیں اور مجھ کو بھی ان کا توڑ کرنے کے لئے لٹریچر کی طرف سے قلم ہاتھ میں لینا پڑا، جس کا مجھے افسوس ہے۔میری رائے ہے کہ ’دویم درجہ‘ کے اظہار خیال کی بہترین داد یہ ہے کہ وہ ایک دم سے نظرانداز کیا جائے، لیکن اس قسم کا استغناء شاید یورپ میں جائز ہو جہاں وسیع النظر اور خوش ظرف اہل قلم تنقیدات عالیہ (یعنی ہائر کریٹی سزم) کا صحیح مذاق رکھتے ہیں، لیکن تنگ خیال اور بے درد مارہروی اور ان کے یاران طریقت کے تحت نتائج فکر جو ننگ انشا پردازی ہیں، بھٹیاریوں کی ’’تو تو میں میں‘‘ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے، اور گو میں ان کی تمام مزخرفات کا استقصا نہ کرسکا، تاہم سلسلۂ تحریر میں جس قدر حصہ ان کے خیالات کا جلوہ گر کیا گیا ہے، وہ بتائےگا کہ ان پر ایک کافی حد تک توجہ کی ضرورت تھی۔حاشیہ(1) دنیا کی متمدن اقوام کی عورتوں میں ہمیشہ بالائی حصہ جسم کے لئے پوشش خاص کا رواج رہا ہے، آج بھی مہوشان فرنگ میں طرح طرح کے لباس ہیں جو جسم سے متصل پہنے جاتے ہیں، یہ آرائش جوانی کے سوا صحت نسوانی کے لئے بھی ضروری ہیں، اختلاف خوش وضعی کے ساتھ ان کے مختلف نام ہیں اور ان ناموں کی تصریح سوسائٹی کے طبقات اعلیٰ میں بھی غیرسنجیدہ نہیں سمجھی جاتی۔

دراصل ’’محرم‘‘ بھی اتنا شایستہ اور مہذب لفظ ہے کہ دنیا کی کوئی زبان اس سے زیادہ بہتر اور سنجیدہ تر لفظ پیش نہیں کرسکتی، ہاں ایک قابل نے اس کا ترجمہ کرکے صرف اپنی نفرت انگیز ’’سوقیت‘‘ کا اظہار کیا تھا!


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.