نفسیات شناس
آج میں آپ کو اپنی ایک پر لطف حماقت کا قصّہ سناتا ہوں۔
کرفیوکے دن تھے۔ یعنی اس زمانے میں جب بمبئی میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہو چکے تھے۔ ہر روز صبح سویرے جب اخبار آتا تو معلوم ہوتا کہ متعدد ہندوؤں اور مسلمانوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔میری بیوی اپنی بہن کی شادی کے سلسلے میں لاہور جا چکی تھی۔ گھر بالکل سونا سونا تھا، اسے گھر تو نہیں کہنا چاہیے کیونکہ صرف دو کمرے تھے، ایک غسل خانہ، جس میں سفید چمکیلی ٹائلیں لگی تھیں۔ اس سے کچھ دور ہٹ کر ایک اندھیرا سا باورچی خانہ اور بس۔
جب میری بیوی گھر میں تھی تو دونوکر تھے۔ دونوں بھائی کم عمر تھے۔ ان میں سے جو چھوٹا تھا وہ مجھے قطعاً پسند نہیں تھا اس لیے کہ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ چالاک اور مکار تھا چنانچہ میں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نکال باہر کیا اور اس کی جگہ ایک اور لڑکا ملازم رکھ لیا جس کا نام افتخار تھا۔
رکھنے کو تو میں نے اسے رکھ لیا لیکن بعد میں بڑا افسوس ہوا کہ وہ ضرورت سے زیادہ پھرتیلا تھا۔ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور کوئی افسانہ سوچ رہا ہوں کہ وہ باورچی خانہ سے بھاگا آیا اور مجھ سے مخاطب ہوا، ’’صاحب آپ نے بلایا مجھے؟ ‘‘ میں حیران کہ اس خرذات کو میں نے کب بلایا تھا۔ چنانچہ میں نے شروع شروع میں تو اپنی حیرت کا اظہار کیا اور اس سے کہا، ’’افتخار! تمہارے کان بجتے ہیں میں جب آواز دیا کروں اسی وقت آیا کرو۔‘‘ افتخار نے مجھ سے کہا، ’’لیکن صاحب آپ کی آواز مجھے سنائی دی تھی۔‘‘ میں نے اس سے بڑے نرم لہجے میں کہا، ’’نہیں ،میں نے تمھیں نہیں بلایا تھا جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘
وہ چلا گیا لیکن جب ہر روز چھ چھ مرتبہ آ کر یہی پوچھتا صاحب آپ نے بلایا ہے۔۔۔ مجھے تو تنگ آکر اس سے کہنا پڑتا۔۔۔ تم بکواس کرتے ہو، تم ضرورت سے زیادہ چالاک ہو بھاگ جاؤ یہاں سے۔۔۔ اور وہ بھاگ جاتا۔
گھر میں چونکہ اور کوئی نہیں تھا اس لیے میرا دوست راجہ مہدی علی خان میرے ساتھ ہی رہتا تھا، اس کو افتخار کی مستعدی بہت پسند تھی۔ وہ اس سے بہت متاثر تھا۔ اس نے کئی بار مجھ سے کہا، ’’منٹو! تمہارا یہ ملازم کتنا اچھا ہے۔ ہر کام کتنی مستعدی سے کرتا ہے۔‘‘ میں نے اس سے ہر بار یہی کہا، ’’راجہ میری جان تم مجھ پر بہت بڑا احسان کرو گے۔ اگر اسےاپنے یہاں لے جاؤ ،مجھے ایسے مستعد نوکر کی ضرورت نہیں ۔معلوم نہیں کہ راجہ کو افتخار پسند تھا تو اس نے اسے ملازم کیوں نہ رکھ لیا۔ میں نے راجہ سے کہا،’’ دیکھو بھائی، یہ لڑکا بڑا خطرناک ہے، مجھے یقین ہے کہ چور ہے کبھی نہ کبھی میرے چونا ضرور لگائے گا۔‘‘
راجہ میرا تمسخر اڑاتا، ’’تم فرائڈ بن رہے ہو، ایسا نوکر زندگی میں مشکل سے ملتا ہے تم نے اسے سمجھا ہی نہیں۔‘‘
’’میں سوچ میں پڑ جاتا کہ میرا قیافہ یا اندازہ کہیں غلط تو نہیں۔ شاید راجہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہو۔ ہوسکتا ہے افتخار ایماندار ہو اور جو میں نے اس کی ضرورت سے زیادہ پھرتی اور چالاکی کے متعلق فیصلہ کیا ہے، بہت ممکن ہے غلط ہو۔۔۔مگر سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچتا کہ میں نے جو فیصلہ کیا ہے وہی درست ہے ۔مجھے اپنے متعلق یہ حسن ظن ہے کہ انسانی نفسیات کا ماہر ہوں۔ آپ یقین مانیے افتخار کے متعلق جو رائے میں نے قائم کی تھی درست نکلی۔۔۔لیکن۔۔۔‘‘
’’ یہ۔۔۔ لیکن ہی سارا قصہ ہے۔۔۔‘‘
اور قصّہ یوں ہے کہ میں جب بمبئی ٹاکیز سے واپس آیا کرتا تھا تو عادتاً ریل گاڑی کا ماہانہ ٹکٹ جو ایک کارڈ کی صورت میں ہوتا تھا جو سلو لائیڈ کے کور میں بند رہتا تھا، اپنے میز کے ٹرے میں رکھا کرتا تھا ۔ جتنے روپے پیسے اور آنے جیب میں ہوتے وہ بھی اس ٹرے میں رکھ دیتا۔ اگر کچھ نوٹ ہوں تو میں وہ ٹکٹ کے سلو لائیڈ کے کور میں اڑس دیا کرتا۔
ایک دن جب میں بمبئی ٹاکیز سے واپس آیا تو میری جیب میں ساٹھ روپے کی مالیت کے چھ نوٹ دس دس کے تھے، میں نے حسبِ عادت جیب میں سے ٹرین کا پاس نکالا اور سلولائڈ کور میں چھ نوٹ اڑسے اور برانڈی پینے لگا۔ کھانا کھانے کے بعد میں سوگیا۔
صبح جلد بیدار ہوتا ہوں یعنی یہی کوئی ۵ بجے۔ ساڑھے پانچ کے قریب اخبار آ جاتے تھے ان کا جلدی جلدی مطالعہ کرتے کرتے چھ بجے میں اٹھ کر غسل کرتا اس کے بعد پھر برانڈی پیتا اور کھانا کھا کر سو جاتا۔ اس شام بھی ایسا ہی ہوا ۔افتخار نے بڑی پھرتی سے میز پر کھانا لگایا جب میں کھا کر فارغ ہوا تو اس نے بڑی پھرتی سے برتن اٹھائے۔ میز صاف کی اور مجھ سے کہا، ’’صاحب آپ کو سگریٹ چاہئیں۔‘‘
میں اس سے کباب تھا،چنانچہ میں نے اس سے بڑے درشت لہجے میں کہا کہ، ’’سگریٹ تو مجھے چاہئیں۔ لیکن تم لاؤ گے کہاں سے؟ جانتے نہیں ہو آج کرفیو ہے۔ نو بجے سے صبح چھ بجے تک۔‘‘
افتخار خاموش ہوگیا۔
میں حسبِ معمول صبح پانچ بجے اٹھا لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں، نوکر سو رہے تھے۔ کرفیو کا وقت چھ بجے تک تھا۔ اس وقت کوئی اخبار نہیں آیا تھا۔ صوفے پر بیٹھا اونگھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اکتا کر میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو بازار سنسان تھا وہ بازار جو صبح تین بجے ہی ٹرالوں کی کھڑ کھڑاہٹ اور مل میں کام کرنے والی عورتوں اور مردوں کی تیز رفتاری سے زندہ ہوجاتا تھا۔
کھڑکی ایک ہی تھی۔ اس کے پاس ہی میری میز پر جو ٹرے پڑی تھی میری نظر اتفاقیہ اس پر پڑی۔ شام کو ہر روز میں اس میں اپنا ریل کا پاس اور روپے پیسے رکھا کرتا تھا اس لیے کہ یہ معاملہ عادت بن کر طبیعت بن گیا تھا۔ جب میں نے ٹرے کو اتفاقیہ دیکھا تو مجھے وہ پاس نظر نہ آیا جس کے کور میں میں نے دس دس کے چھ کرنسی نوٹ رکھے تھے۔ پہلے تو میں نے سمجھا کہ شاید میں نے کاغذوں کے نیچے رکھ دیا ہوگا لیکن جب کاغذ اٹھائے تو کچھ بھی نہ تھا۔
بڑی حیرت ہوئی۔ ایک ایک کاغذ الٹ پلٹ کیا مگر وہ پاس نہ ملا۔ دونوں نوکر باورچی خانے میں سو رہے تھے۔ میں بڑا متحیر تھا کہ یہ قصہ کیا ہے۔ میں نے اگر گھر آنے سے پہلے شراب پی ہوتی تو میں سمجھتا کہ میرا حافظہ جواب دے گیا ہے یا جیب سے رومال نکالتے وقت مجھ سے وہ چھ نوٹ کہیں گر گئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا۔ میں نے بمبئی ٹاکیز سے واپس گھر آتے ہوئے راستے میں ایک قطرہ بھی نہیں پیا تھا اس لیے کہ گھر میں برانڈی کی پوری بوتل موجود تھی۔ میں نے ادھر ادھر تلاش شروع کی تو دیکھا میرا ریلوے پاس دس دس کے چھ نوٹوں سمیت میز کے نچلے درازمیں فائلوں کے نیچے پڑا ہے۔ میں دیر تک سوچتا رہا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا اس لیے کہ میں نے اسے چھپا کر نہیں رکھا تھا۔
میں نے سوچا کہ یہ افتخار کی حرکت ہے۔ جبکہ میں سو رہا تھا باورچی خانے کے کام سے فارغ ہو کر ٹرے میں وہ پاس دیکھا اور اس کو میز کے نیچے والی دراز میں فائلوں کے اندر چھپا دیا۔ رات کرفیو تھا اس لیے وہ باہر نہیں جاسکتا تھا۔ اس کی غالباً یہ اسکیم تھی کہ جب صبح کرفیو اٹھے تو وہ پاس نوٹوں سمیت لے کر چمپت ہو جائے ،مگر میں بھی ایک کائیاں تھا ۔میں نے پاس فائلوں کے نیچے سے اٹھایا اور پھر ٹرے میں رکھ دیا تاکہ میں افتخار کی پریشانی دیکھ سکوں۔
مجھے مقررہ وقت پر بمبئی ٹاکیز جانا تھا، چنانچہ حسبِ معمول میں نے کرتہ اور پاجامہ نکالا۔ پاجامہ میں ازار بند ڈالا اور تولیہ لے کر غسل خانے میں چلا گیا لیکن میرے دل و دماغ میں صرف ایک ہی خیال تھا،اور وہ افتخار کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری میز کے نچلے دراز میں چھپایا ہوا پاس بڑے وثوق سے نکالے گا پھر جب اسے نہیں ملے گا تو وہ ادھر ادھر دیکھے گا۔ جب اسے ناکامی ہوگی تو وہ اٹھے گا۔ اس کی نظر ٹرے پر پڑے گی وہ کس قدر حیران ہوگا لیکن وہ پاس کو اٹھائے گا اور اپنے نیفے میں اڑس کر چلتا بنے گا۔
میں نے اپنے دماغ میں اسکیم بنائی تھی کہ غسل خانے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا رکھوں گا۔ غسل خانہ میرے کمرے کے بالکل سامنے تھا ذرا سا دروازہ کھلا رہتا اور میں تاک میں رہتا تو افتخار کو رنگے ہاتھوں پکڑ لینے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہوسکتا۔ میں جب غسل خانے میں داخل ہوا تو بہت مسرور تھا۔ بزعمِ خود نفسیاتی ماہرہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ خوش تھا کہ آج میری قابلیت مسلم ہو جائے گی۔
افتخار کو پکڑ کر میں راجہ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ میرا یہ ارادہ نہیں تھا کہ اسے پولیس کے حوالے کروں مجھے صرف اپنا دلی اور ذہنی اطمینان ہی تو مطلوب تھا۔ چنانچہ میں نے غسل خانے میں داخل ہو کر جب اپنے کپڑے اتارے تو دروازہ ذرا سا کھلا رکھا۔ پانی کے دو ڈونگے اپنے بدن پر ڈال کر میں نے صابن ملنا شروع کیا اس کے بعد کئی مرتبہ میں نےجھانک کر کمرے کی طرف دیکھا مگر افتخار پاس لینے نہ آیا۔ لیکن مجھے یقین واثق تھا کہ وہ ضرور آئے گا اس لیے کہ اس وقت کرفیو اٹھ چکا تھا۔
میں فوارے کے نیچے بیٹھا اور اس کی تیز اور ٹھنڈی پھوار میں اپنا کام بھول گیا اور سوچنے لگا، افسانہ نگار ہونا بھی بہت بڑی لعنت ہے۔ میں نے اسکیم کو افسانے کی شکل دینا شروع کر دی، ساتھ ساتھ نہاتا بھی رہا اتنا مزا آیا کہ افسانے اور پانی میں غرق ہوگیا۔ میں نے پورا افسانہ صابن اور پانی سے دھو دھا کر اپنے دماغ میں صاف کر لیا۔ بہت خوش تھا۔ اس لیے کہ اس افسانے کا انجام یہ تھا کہ میں نے اپنے نوکر کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے اور میری نفسیات شناسی کی چاروں طرف دھوم مچ گئی ہے۔
میں بہت خوش تھا، چنانچہ میں خلافِ معمول اپنے بدن پر ضرورت سے زیادہ صابن ملا۔ ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کیا لیکن ایک بات تھی کہ افسانہ میرے دماغ میں اور زیادہ صاف اور زیادہ اجلا ہوتا گیا۔ جب نہا کر باہر نکلاتو میں اور بھی زیادہ خوش تھا،اس لیے کہ پورا افسانہ میں نے صابن اور پانی کے ساتھاپنے دماغ میں لکھ لیا تھا، اب صرف یہ کرنا تھا کہ یہ قلم اٹھاؤں اور یہ افسانہ لکھ کر کسی پرچے کو بھیج دوں۔
میں خوش تھا کہ چلو ایک افسانہ ہوگیا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں گیا ۔میرے فلیٹ میں صرف دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں تو وہ معاملہ پڑا تھا۔ یعنی میرا ریلوے کا پاس جس میں دس دس کے چھ نوٹ ملفوف تھے۔ میں دوسرے کمرے میں کپڑے پہن رہا تھا۔ کپڑے پہن کر جب باہر نکلا تو یوں سمجھیے جیسے افسانوں کی دنیا سے باہر آیا۔ فوراً مجھے خیال آیا کہ میری اسکیم کیا تھی۔لپک کر میں اپنی میز کے پاس پہنچا،ٹرے کو دیکھا تو میری ساری افسانہ نگاری ختم ہو گئی۔
میرا ریلوے پاس دس دس کے چھ نوٹوں سمیت غائب تھا۔
میں نے فوراً اپنے شریف نوکر کو طلب کیا اور اس سے پوچھا، ’’کریم، افتخار کہاں ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا، ’’صاحب وہ کوئلے لینے گیا ہے۔‘‘
میں نے صرف اتنا کہا، ’’تو اس نے اپنا منہ کالا کر لیا ہے۔‘‘
کریم نے اس کی تلاش کی مگر وہ نہ ملا۔ میں غسل خانے میں انسانی نفسیات کو صابن اور پانی سے دھوتا اور صاف کرتا رہا۔ مگر افتخار مجھے صاف کر گیا۔ اس لیے کہ اسی صبح جب میں بمبئی ٹاکیز کی برقی ٹرین میں روانہ ہوا تو میرے پاس، پاس نہیں تھا ٹکٹ چیکر آیا تو میں پکڑا گیا ۔۔۔ مجھے کافی جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |