نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
ہزار حیف کہ گل کی خبر نہیں آتی
رکھے ہے آئینہ کیا منہ پہ میرے اے ہم دم
کہ زندگی مجھے اپنی نظر نہیں آتی
بھٹکتی پھرتی ہے لیلیٰ سوار ناقے پر
جدھر ہے وادئ مجنوں ادھر نہیں آتی
کمر ہی کو تری پروا نہیں ہے کچھ اس کی
وگرنہ جعد تو کب تا کمر نہیں آتی
تری شبیہ مرے سامنے کھڑی ہے میاں
حیا کے مارے ولے پیشتر نہیں آتی
ہوا ہوں آہ میں جس پر غرور پر عاشق
کنیز اس کی کبھی میرے گھر نہیں آتی
قلق سے ہوتی ہے کچھ دل کی میرے یہ حالت
کہ نیند رات کو دو دو پہر نہیں آتی
شب وصال کب آتی ہے میرے گھر اے چرخ
کہ اس کے پیچھے سے دوڑی سحر نہیں آتی
گیا ہے غم مرے نامے کو لے کے کچھ ایسا
کہ آج تک خبر نامہ بر نہیں آتی
خرام فتنۂ روز جزا بہ ایں شوخی
ترے خرام کے عہدے سے بر نہیں آتی
میں ترک عشق کو کہتا ہوں مصحفیؔ تجھ سے
یہ بات دھیان میں تیرے مگر نہیں آتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |