نا کسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا
Appearance
نا کسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا
بس گیا میں جان سے اب اس سے یہ جانا گیا
کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
ایک ہی چشمک تھی فرصت صحبت احباب کی
دیدۂ تر ساتھ لے مجلس سے پیمانہ گیا
گل کھلے صد رنگ تو کیا بے پری سے اے نسیم
مدتیں گزریں کہ وہ گلزار کا جانا گیا
دور تجھ سے میرؔ نے ایسا تعب کھینچا کہ شوخ
کل جو میں دیکھا اسے مطلق نہ پہچانا گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |