نامی پریس کانپورکی لٹریری خدمات
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
سینہ جویائے زخم کاری ہے
آج کل دو کتابیں سرعت کے ساتھ ’’نامی پریس‘‘ میں چھپ رہی ہیں، ایک تو یادش بخیر اس کی جدید تالیف جو آج ادبی حیثیت سے ہزارہا تربیت یافتہ دماغوں کا حکمران ہے، یعنی ’’مسلم شبلی‘‘ کی تقریظ مثنوی، دوسری ان کے خلیفۂ وقت، یعنی ’’مؤلف البرامکہ‘‘ کا نقش ثانی ہے، یعنی تذکرۂ نظام الملک طوسی جو سلسلۂ وزرائے اسلام کی دوسری جلد ہے۔
متعلق ان کتابوں پر تفصیلی نظر اس سلسلۂ مضامین کا موضوع خاص ہوگا جو آئندہ تالیفات جدیدہ کے عنوان سے البشیرمیں ملک کے ’’شریف تر لٹریچر‘‘ سے متعلق مستقلاً قائم کیا جائےگا، یہاں بالتحقیق یہ دکھلانا ہے کہ جس زمانہ سے سرسید نے لکھنے پڑھنے کو رواج دیا، یعنی ایک خاص طرح کا لٹریچر عالم وجود میں آیا، ساتھ ہی مرحوم کا یہ بھی خیال تھا کہ لٹریچر کی ترقی کے لیے ٹائپ کا رواج لازم سا ہے، یعنی وہ ملک میں روز افزوں دماغی ضروریات کے لحاظ سے پتھر کی گھس گھس کوپسندنہیں کرتے تھے، چنانچہ مطبوعات ’’سائٹفک سوسائٹی‘‘ وغیرہ کا بیشتر حصہ اور تہذیب الاخلاق کے پرچے ہمیشہ ٹائپ میں چھپے۔ رفتہ رفتہ علی گڑھ کی صدائے اصلی اور آواز ہائے بازگشت کا ایک اچھا خاصا مجموعہ تیار ہونے لگا۔ سال کے سال کانفرنس نے بھی لٹریچر میں مستقل اضافے شروع کیے، ان کے لیے کسی اضافی مگر خوش حیثیت پریس کی ضرورت تھی، اس تقریب سے مفید عام آگرہ منظر عام پر آیا اور لٹریری دنیا روشناس ہوئی۔
علی گڑھ لٹریچر کا زیادہ تر حصہ مفید عام نے شائع کیا ہے اور جن صاحبوں نے ابتدائی پاکیزہ مطبوعات اور آخر آخر میں تمدن عرب کے کے ٹھاٹھ دیکھے ہیں وہ اسے تسلیم کریں گے کہ اس ’’صوفیانہ پریس‘‘ نے شریف تر لٹریچر کی اشاعت میں جس قدر حصہ لیا ہے اس کے نتائج وسیع تاریخی حیثیت رکھتے ہیں، وہ نقوش جو ظاہراً پتھر سے کاغذ پر منتقل ہوتے رہے، آج اس لطیف دماغی سطح پر ہیں جو ہمیشہ ’’معلمان غیر ذی روح‘‘ کا تختۂ مشق رہی ہے، جس کے آثار اگر خصائص قومی، کوئی چیز ہیں تو رہتی دنیا تک مٹنے والے نہیں ۔
مختصر یہ کہ سرسید اور ان کے لٹریری دائرہ نے کبھی اسے پسند نہیں کیا کہ ان کی تصنیفات کسی عامیانہ پریس کو دی جائیں، اس لیے صرف ’’مفید عام‘‘ سے واسطہ رکھا گیا، جس نے اپنے فرائض خود داری کے ساتھ ادا کئے، ورنہ ملک میں دوئم درجہ کے مطابع، آڑے ترچھے حاشیوں کے ساتھ ’’نسخۂ لاجواب مفید ہر شیخ و شاب‘‘ کے شائع کرنے والے کم نہیں ہیں، جہاں نری ’’مولویانہ تصنیفات‘‘ آئے دن ’’سیاہ وسفید‘‘ قالب اختیار کرتی رہتی ہیں۔
ایک حکیم کے خیال میں شائستگی کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کے جتنے صیغے ہیں عملاً ان میں متناسب موزونیت ہو، یعنی شائستگی کا کوئی رکن کسی حیثیت سے چھوٹنے نہ پائے، یہ نہیں ہو سکتا کہ جہاں کوئی صاحب مغربی تہذیب اور لباس سے آراستہ پیراستہ ہیں، کبھی ایسا بھی ہواکہ ہوتے ساتے صرف ’’لنگوٹی‘‘ پر قناعت کی گئی ہو (میری غرض اس لفظ کے صرف اصطلاحی مفہوم سے ہے) شاید یہ ایک طرح کا بے ساختہ پن ہو، تاہم اس کے مکروہ ہونے میں تو شک نہیں لیکن ہم میں بڑے سے بڑاسفید پوش بھی اکثر ان اوصاف سے معرّا دیکھا جاتا ہے اور بے تمیزی ایک طرح کی سادگی سمجھی جاتی ہے۔
بہر حال جس خاص موزونیت کی طرف میں آپ کو لے جانا چاہتا ہوں، اس کا اقتضائے طبعی یہ ہے کہ زندگی کی ہر شاخ میں متوازی اور مساوی ترقی کے آثار پائے جائیں یعنی بے تکاپن نہ ہو، اگر میں غلطی نہیں کرتا تو سرسید کے تمام افعال ارادی اور اضطراری میں اس اصول کی رعایت ملحوظ ہوتی تھی۔ جس طرح وسیع نظامات پر انہوں اپنے عظیم الشان تخیل کی بنیاد قائم کی تھی جس کے مادّی شواہد آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ یہی اہتمام وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کے لیے کرتے تھے جو کالج یا اس کے متعلقات کا ایک جزو ہو سکتی تھی۔
یہ ظاہر ہے کہ مرحوم کے بعد علی گڑھ لٹریچر میں بلحاظ وصف یا مقدار چنداں اضافہ نہیں ہوا، یہ اور بات ہے کہ کبھی ضرورت ہوئی تو پڑھے ہوئے سبق دہرا لئے گئے، تاہم اس نہیں نہیں پر بھی کچھ نہ کچھ مواد جمع ہوتا رہتا ہے، مگر یہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ وہ عموماً غیر وقیع مطابع کو دیا جاتا ہے جو آج کل ہر گلی کوچے میں حشرات الارض کی طرح نکل پڑے ہیں۔
پچھلے چند سالوں کی کانفرنس کی رپورٹوں کو دیکھئے کتنی بُری چھپی ہیں جنہیں دیکھ کر نفرت ہوتی ہے ۔ خود سرسید کی ایک لائق قدر تصنیف ایک بازاری پریس سے ہوکر نکلی، یہ ’’لنگوٹی‘‘ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ امور کتنے ہی رکیک ہوں تاہم ایسے خاصان قوم کے اصلی مذاق کی ایک حد تک غمازی تو ہوتی ہے۔ مجھے اصرار ہے کہ ’’علی گڑھ لٹریچر‘‘ کو بلا استثناء اول درجہ کے پریس میں چھپنا چاہیے، موجودہ پالیسی لائق اصلاح ہے اور شاید اسی کا اثر ہے کہ ’’مفید عام‘‘ کی لطافت اور صفائی میں بھی ایک طرح کا انحطاط شروع ہوگیا ہے، یعنی وہ پہلی سی بات نہیں، قاعدہ ہے بازار میں زیادہ تر وہی چیز آتی ہے جس کی عموماً مانگ ہوتی ہے۔
لیکن میں نہایت خوش ہوں کہ آج کل ایک ’’شریف پریس‘‘ ملک کے ’’شریف تر لٹریچر‘‘ کے لیے وقف خاص ہو رہا ہے اور اپنے طرز عمل سے ثابت کرتا جاتا ہے کہ بیسویں صدی کے اختراعات کے ساتھ ہی ’’لیتھوگراف‘‘ کے صنعتی تصرفات ایسے نہیں ہیں جن سے ایک منٹ کے لیے بھی دست بردار ہونا ممکن ہے، مضطرب یورپ کی عاجلانہ ضرورتیں صرف ٹائپ کی سرعت رفتار سے پوری ہو سکتی ہیں، لیکن وہاں بھی تزئین و آرائش کے موقعوں پر لیتھوگراف کی ضرورت ہوتی ہے، گوطریقہ کارروائی کسی قدر مختلف ہو، ہم کو نامی پریس کا ممنون ہونا چاہیے کہ وہ ایسے زمانہ میں جب کسی چیز کی اچھائی کا اندازہ اس کے اوصاف سے نہیں بلکہ سستے داموں سے کیا جاتا ہے، قیمتی لٹریچر کے اجزائے زرّیں غیر معمولی نفاست و پاکیزگی سے پیش کرتا رہتا ہے، اور غالباً وہ اس حثییت سے تمام مشرق میں منفرد ہے ۔
ملک میں آج پانوں کے ولایتی جوڑوں پر معمولاً ایک اشرفی صرف کرنے والے تو بہیترے ہیں، لیکن اس وضع دار جماعت میں کتنے ایسے ہیں جو بالالتزام نامی پریس کی شائع کردہ ’’جلد ہائے خاصہ‘‘ کی خریداری کو حفظ مرتبت کا ایک ضروری جزو سمجھتے ہوں، بہرحال سچی وقعت کی کمی سے لٹریچرکی کتنی ہی کساد بازاری ہو، تا ہم نامی پریس اصولاً جرمنی نہیں، بلکہ انگلش ہے، یعنی اس کی پیداوار آخور کی بھرتی نہیں ہوتی بلکہ جو چیز ہے ٹکسالی اور آپ اپنی نظیر ہے۔
اس وقت تک اس پریس سے جتنی لائق ذکر تصنیفات نکل چکی ہیں، ان کی تفصیل غالباً یہ ہے۔ (۱)الفاروق (۲) البرامکہ (۳) حیات جاوید (۴) رباعیات حالی (۵) الغزالی (۶) الکلام (۷) دیوان شبلی
بعض جزئیات کی تصریح خاص لٹریری مقاصد کے لحاظ سے ناگزیر سی ہے، اس لیے میں بتانا چاہتا ہوں کہ ’’الغزالی‘‘ کی جلد خاصہ کے لیے جو کاغذ استعمال کیا گیا ہے، غالباً اس سے پہلے ملک کی کسی تصنیف کو اتنا قیمتی کاغذ نصیب نہیں ہوا، کم وبیش یہی حال اور کتابوں کا بھی ہے۔ خطّاطی اور چھپائی ایک سے ایک بڑھ کر، بس یہ معلوم ہوتا ہے سنگ مرمر پر سنگ اسود کی پچی کاری کی گئی ہے۔ یورپ میں ’’بیسکرول‘‘ بہترین ساخت کا کاغذ سمجھا جاتا ہے جس کی کتابی تقطیع کے ایک کوائر یعنی۱۲۰ تختوں کی قیمت گیارہ روپے ہوتی ہے، لیکن نامی پریس نے حال میں ایک کاغذ منگوایا ہے جو ’’بیسکرول‘‘ کی طرح برف سا سفید اور نہایت چکنا او ر لطائف میں اس سے بڑھا ہوا ہے، یعنی ہلکا ہے اور لاگت میں تو نسبتاً کچھ نہیں۔ ’’الکلام‘‘ اور ’’دیوان شبلی‘‘ قسم اول میں یہی کاغذ لگایا گیا ہے، اور اسی پر تالیفات موعودکی جن کا ذکر شروع میں آ چکا ہے، جلد خاصہ چھپ رہی ہے۔ ناظرین قبل از وقت درخواستیں بھیج کر ایک ایک جلد اپنے لیے محفوظ کرا سکتے ہیں۔
تالیفات متذکرہ کے علاوہ دوکتابیں اور ہیں جو منشی رحمت اللہ رعدؔ نے خاص اہتمام سے اپنی ایڈیٹری میں شائع کی ہیں ۔
یعنی ’’دیوان حافظ‘‘ اور ’’آثار الصنادید‘‘ اور یہ ایک ایسی مفید جدت ہے جس کی طرف ملک کے اور لائق اصحاب کو بھی متوجہ ہونا چاہیے، آج جو لوگ مستقل تصنیفات کے مالک ہیں، ان میں وقیع تراجم کا بالکل رواج نہیں ہے، اور اس کا تو خیال بھی کسی کو نہیں آتا کہ کوئی قدیم تصنیف محققانہ نوٹ و حواشی کے ساتھ شائع کی جائے، اور گو یورپ کی مستشرقیت کا اعتراف نہایت فیاضانہ الفاظ میں کیا جاتاہے، لیکن وہاں کے نمونوں کی پیروی کا خیال، تفکر بالقوہ سے آگے نہیں بڑھتا۔ یہ بھی لٹریچر کی حق تلفی کا ایک پیرایہ ہے جو ناقدردان سخن کے ہاتھوں ہوتی رہتی ہے، بہرحال ہم رعدؔ کے ممنوع ہیں کہ انہوں نے ایک جدید پیش قدمی کی۔
ابھی مجھے یہ دکھانا باقی ہے کہ عموماً کتابوں کی لوح یعنی ’’سرورق‘‘ کے آرائشی تکلفات رعدؔ کی نازک خیالی اور ایجاد پسند طبیعت کا بہترین مرقع ہوتے ہیں۔ ’’آرٹ‘‘ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ اپنے تصرفات کے سلسلہ میں نیچر سے قریب ومتماثل ہوتا جائے۔ رعدؔ اس نکتہ کو خوب سمجھتے ہیں، اور سچ یہ ہے کہ فنون لطیفہ کی جس شاخ کو انہوں نے اپنی جدت اختراع اور صنعت آرائیوں سے چمکایا ہے، وہ ان کو من حیث الفن، اختصاصی (اسپشلسٹ) ثابت کرتی ہے اور یہ خود ایک کمال ہے۔
بعضوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں میں کسی حد تک ارتقاء عقلی شروع ہو گیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو تھوڑی دیر کے لیے ہم دل خوش کرنے کو مانے لیتے ہیں کہ موجودہ دور (جس میں ’’تقریظ مثنوی‘‘ اور ’’نظام الملک طوسی‘‘ کی لائف عنقریب عالم محسوسات میں قدم رکھنے والی ہیں ) دماغی حیثیت سے اس وقت کے گئے گزرے مسلمانوں کا ’’نشاۃ الشانیہ‘‘ ہے، اس خیال کے ساتھ ہی وہ ’’ادب العالیہ‘‘ یعنی’’کلاسیکی‘‘ مجموعۂ زریں پیش نظر ہو گیا جسے ’’نامی پریس‘‘ نے وقتاً فوقتاً شائع کیا ہے۔ ان مکلف اور خوبصورت جلدوں کو ایک جگہ رکھ کر دیکھئے کیا یہ کسی مٹی ہوئی قوم کے عقلی آثار ہیں؟ ہرگز نہیں ! یہ صحائف زرنگا ر تو کچھ اور کہہ رہے ہیں، ان کی ایک ایک جلد مطبع سے براہ راست ’’برٹش میوزیم‘‘ انڈیا آفس پیرس کے کتب خانۂ عامہ اور اردو لٹریچر کے پروفیسر ’’گارسن ڈی ٹاسی کے پاس ہدیۃ بھیجنی تھیں، یعنی دنیا کے اور فائق تر لٹریچر کے دائرہ میں ان کو داخل کرنا تھا، فضل وکمال کے ساتھ صنعت کے عمدہ ترین نمونے تھے، جو یورپ میں علمی نمائش کی حیثیت سے پیش کئے جا سکتے تھے۔
ہاں ایک بات اور یاد آئی۔ آرٹسٹ رعدؔ کے دست صنعت کی موشگافیاں اس وقت تک طلائی اور نقرئی مینا کاری اور مختلف قسم کی نازک رنگ آمیزیوں سے آگے نہیں بڑھیں، اس میں بھی کسی حاشیہ کی بیل کے لیے وہ نمونہ کا م میں نہیں لایا گیا، جسے اصطلاح میں ’’کلید یونانی‘‘ کہتے ہیں، اور جو قدامت کے لحاظ سے ایک کلاسیکل چیز ہے۔
میری خواہش تھی کسی موقع پر صرف سادگی سے آرائش کا کام لیا جائے۔ ایک جدید طریقہ یہ ہے کہ حاشیہ کی درمیانی سطح یعنی پلیٹ کو دبا کر حروف ابھارے جاتے ہیں، جس کے لیے کسی رنگ کی ضرورت نہیں، سطح کا نشیب وفراز اور کوئی خاص خیال جو نقوش میں ظاہر کیا گیا ہو، بجائے خود ایک لطیف صنعت ہے۔ اس کے لیے وہ طریقہ اختیار کرنا ہوگا جو ریلیف اور ہاف ٹاؤن پروسس میں برتا جاتا ہے، یہ خیال کافی طور پر الفاظ ادا نہیں ہو سکتا، مغربی نمونے رہبری کریں گے۔
دیوانِ شبلی کی لوح نے ترکوں کی معاشرت کی جدت کو دبایا، لیکن رعدؔ اس بڑھاپے میں ابھار کہاں سے لاتے، نتیجہ یہ ہوا کہ حروف سپاٹ رہے۔
آخر میں حضرت رعدؔ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ بے چین زندگی کے حوائج کو دیکھتے ’’دیر آید درست آید‘‘ ایک بے معنی سا فقرہ ہے۔ اکسپریس میں اڑنے والے (چھکڑے تو مدت ہوئی متروک ہو چکے ہیں) مسافر گاڑیوں میں سفر کرنا بھی بلا ئے جان سمجھتے ہیں، آپ کی ’’کل‘‘ خیام کی ’’فردائے دیروز‘‘ یعنی آج سے بدل جاتی تو اچھا تھا، آخر انتظار کی کوئی حد بھی ہے، مولانا روم اور نظام الملک طوسی سے جلد ملائیے تو احسان ہوگا۔
یہ بسیط اظہار خیال ایک مستقل عنوان کے تحت میں غالباً بعض صاحبوں کی رائے میں ایک بے جوڑ سی بات ہوگی، لیکن دنیا میں آج ذرّے بھی سالمات ہو رہے ہیں، اور کوئی ایسی چیز موجود فی الخارج نہیں ہے جس سے نظام کائنات کو کچھ نہ کچھ مدد نہ ملتی ہو، نامی پریس چونکہ بواسطہ ملک کی دماغی ترقی کا کفیل ہے، ضرورت تھی کہ لٹریری گروہ کی طرف سے قومی اخبار میں اس کے مساعی جمیلہ کا کوئی اعتراف نہ سہی، ایک مرتبہ ذکر تو آ جائے۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |