ناصحو دل کس کنے ہے کس کو سمجھاتے ہو تم
Appearance
ناصحو دل کس کنے ہے کس کو سمجھاتے ہو تم
کیوں دوانے ہو گئے ہو جان کیوں کھاتے ہو تم
مجھ سے کہتے ہو کہ میں ہرگز نہیں پیتا شراب
میں تمہارا دوست یا دشمن کہ شرماتے ہو تم
اور جو بیٹھے رہیں تو ان سے تم محظوظ ہو
جب ہمیں آتے ہیں تو گھبرا کے اٹھ جاتے ہو تم
لو جی اب آرام سے بیٹھے رہو جاتے ہیں ہم
پھر نہ آویں گے کبھی کاہے کو جھنجھلاتے ہو تم
رات کو تم جس جگہ تھے ہم کو سب معلوم ہے
جھوٹ کیوں بکتے ہو کاہے کو قسم کھاتے ہو تم
منہ بنا میری طرف آئینے کا بوسہ لیا
واہ وا اچھی طرح سے روز ڈہکاتے ہو تم
ایک تو میں آپ ہوں بے زار اپنی جان سے
دوسرے بک بک کے میرے جی کو گھبراتے ہو تم
اے کبوتر اے صبا اے نالہ اے فریاد آج
کہیو دلبر سے اگر کوچے تلک جاتے ہو تم
سوزؔ کا دل خوش تو ہو جاتا ہے وعدوں سے میاں
پر غضب یہ ہے کہ وقت ہی پر مکر جاتے ہو تم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |