نئی دہلی (مرزا فرحت اللہ بیگ)
واحدی صاحب کے ہاں دعوت کھائی۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے دہلی کے اہل قلم سے ملاقات کرائی۔ ہر چیز دیکھتا اور خوش ہوتا تھا۔ ہر شخص سے ملتا اور لطف اٹھاتا تھا۔ دل باغ باغ تھا کہ دلی پھر نئے سرے سے دلی ہو رہی ہے، مگر چلنے سے ایک دن پہلے مرزا قمرو سے جو باتیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ہوئیں، اس نے سارا جوش ٹھنڈا کر دیا۔ دل بیٹھ گیا اور اس وقت سمجھ میں آیا کہ دلی کیا تھی اور کیا ہو گئی۔مرزا قمرو کو مرزا قمرو کہوں تو دلی والا تو کوئی نہ سمجھے۔ ہاں مرزا چھکڑا کہوں تو سب سمجھ جائیں۔ ان کو بھی پرانی دہلی کا ایک کھنڈر سمجھو۔ چند روز کی ہوا کھا رہے ہیں۔ زمانے کا ایک آدھ تھپیڑا پڑا اور ان کا خاتمہ ہے۔ پہلے اچھے کھاتے پیتے لوگوں میں رہتے تھے۔ 60-70 ہزار کی جائیداد تو دو تمسکوں میں برابر ہو گئی۔ کچھ بچی کھچی رہ گئی تھی، وہ ٹوٹ پھوٹ کر ٹھیکرا ہو گئی ہے۔ انہوں نے اپنے خرچ کم نہیں کئے، زمانے نے سوائے ان کی جائداد کے ہر چیز کی قیمت بڑھا دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس جائیداد کو بھی گروی رکھنا پڑا۔ نالش ہوئی ہے کوئی دن میں وہ بھی جاتی ہے۔ اس سے پہلے ہی یہ مر جائیں تو اچھا ہے۔نام تو ان کا مرزا قمر الدین ہے، مگر ان کی وضع قطع، ان کے بھاری بھرکم جسم اور ان کی ٹھمک چال کی وجہ سے ساری دلی ان کو مرزا چھکڑا کہتی ہے۔ پڑھے لکھے خاک نہیں پھر بھی خود کو شاعر سمجھتے ہیں اور ایک چھوڑ 2، 2 تخلص، خیال اور دل، رکھ لئے ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی استعمال تو آتا نہیں ہاں یوں ہی شوق میں ایک نام کے تین کر لئے ہیں۔ خیر یہ جتنے نام چاہے رکھ لیں دلی والے تو انہیں مرزا چھکڑا کہتے ہیں اور یہی کہیں گے۔ تمام دلی کی وضع بدل گئی اور نہ بدلی تو ان کی، اور بدلنے کیوں لگی، دلی کے جو چھکڑے پہلے تھے وہ اب بھی ہیں، رتی برابر فرق نہیں ہوا، جب وہ نہ بدلے تو یہ کیوں بدلنے لگے۔ پرانی وضع پر جان دیتے ہیں، نئی وضع پرلعنت بھیجتے ہیں۔ آج کل کی کسی بات کی تعریف سنی اور پیچھے پڑ گئے۔ لوگوں کو مذاق ہاتھ آ گیا ہے۔ایک آیا، لاٹ صاحب کی کوٹھی کی تعریف کر گیا۔ انہوں نے مذمت شروع کی۔ ابھی یہ بات ختم نہ ہوئی تھی کہ دوسرے نے آ کر کسی چیز کی تعریف کر دی۔ یہ پہلا سلسلہ چھوڑ، دوسرے کے پیچھے پڑ گئے۔ لو بچارے کو بہت ستانے لگے ہیں۔ میں نے دس برس پہلے بھی ان کو دیکھا تھا۔ اس وقت یہ حالت نہ تھی، اب توکچھ باولے سے ہو گئے ہیں۔ اسی سال کی عمر ہے، آخر دماغ کہاں تک کام دے۔ یہ دوسروں پر بگڑتے ہیں، دماغ ان پر بگڑ بیٹھا ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ نئی دہلی کے ایسے دشمن ہیں۔ اگر معلوم ہوتا تو بچارے کو ناحق پریشان کیوں کرتا۔چلنے سے ایک دن پہلے شام کو کوئی ساڑھے پانچ بجے گھر سے ٹہلنے نکلا۔ جامع مسجد قریب ہی ہے، خود بخود پاؤں ادھر ہی اٹھے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ شربت والے کی دکان کے قریب رومال بچھائے، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر مرزا صاحب بیٹھے ہیں۔ میں نے جا کر سلام کیا، پہلے تو آنکھوں کو چندھیا کر ذرا شست لگائی۔ جب یوں کام نہ چلا تو آنکھوں کے سامنے کا چھجا بنا کر غور سے دیکھا اور ایک دفعہ ہی گھبرا کر کھڑے ہو گئے، ’’اوہو! میاں فرحت ہیں، کہو بیٹا! یہاں کہاں، ہم تو سمجھے تھے کہ حیدرآباد ہی کے ہو لئے۔ آخر آئے مگر بھئی بہت دنوں میں آئے۔‘‘میں نے کہا، ’’مرزا صاحب! کیوں نہ آتا، دلی کہیں ہم سے چھوٹ سکتی ہے۔‘‘کہنے لگے، ’’دلی، بیٹا دلی تو بہت دن ہوئے جنت کو سدھاری۔ اب دلی تھوڑی ہے، یہ تو لاہور کی اماں ہے۔ جاؤ، جائداد بیچ کر کہیں اور جا بسو۔ اب یہ تمہاری دہلی نہیں رہی، یہ تو دوسروں کی دلی ہو گئی ہے۔‘‘ مجھے کیا معلوم تھا کہ نئی دلی کی تعریف سن کر ان کے آگ لگ جاتی ہے۔ میرے منہ سے نکل گیا، ’’واہ مرزا صاحب واہ! دلی تو اب دلہن بن گئی ہے۔ اور ابھی کیا ہے، تھوڑے دنوں میں دیکھنا کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ کبھی رائے سینا بھی گئے ہو یا یوں ہی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے نئی دلی کو صلواتیں سناتے ہو۔‘‘میرا اتنا کہنا تھا کہ بپھر گئے، ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دیا۔ کہا، ’’آ بیٹھ! میں تجھے تیری دلی کی تعریف سناؤں۔ تجھے معلوم بھی ہے کہ دلی کا دل کیا تھا؟‘‘میں نے کہا چاندنی چوک۔ کہنے لگے، ہٹ تیرے جھوٹے کی، شرماتا کیوں ہے؟ چاوڑی کیوں نہیں کہتا۔ کہیں بڑی جگہ نوکر ہے جو چاوڑی کو چھوڑ کر چاندنی چوک کی تعریف پر اتر آیا ہے۔ بیٹا! دلی کا دل چاوڑی ہے۔ اب تو چاوڑی کو دیکھ کیا رنگ ہے۔ جب دل ہی بگڑ گیا تو شہر کیا رہا۔ اب جامع مسجد سے لگا کر اجمیری دروازے تک چلا جا، وہ وہ شکلیں نظر آئیں گی کہ خدا کی پناہ۔ نہ وہ اللہ دی غازی آباد والی رہی، نہ نور جہاں، نہ وہ حشمت ہے، نہ وہ میرٹھ والی زیبن، زیبن تو تجھے یاد ہوگی؟ اب اس کے قاضی کے حوض والے کوٹھے کو جا کر دیکھ، ایک پہلوان بیٹھے ہیں، تھوبڑا سا منہ، بیل کے سے دیدے، یہ موٹی ناک، ڈھیلا ڈھالا نچنیوں کا سا لباس، منہ کے سامنے بجلی کا لیمپ رکھا ہے۔ لیجئے یہ ہیں ’’بی صاحبہ‘‘ اور کس جگہ آ کر بیٹھی ہیں کہ بی زیبن کی جگہ۔اوپر جائیے تو نہ سلام، نہ مزاج پرسی، نہ پان ہے نہ چھا لیا۔ جاتے ہی مطلب کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں اور ماشاء اللہ گفتگو ایسی شستہ زبان میں کی کہ منہ سے پھول چھڑنے لگے۔ گالی بغیر تو بات ہی نہیں ہوتی۔ بھلا ان کے ہاں پان کہاں، یہ نہ پان کھائیں نہ پان بنانا جانیں۔ کسی نے بے حیا بن کرپان مانگا تو دو پیسے نکال پھینک دیے۔ نیچے پنواڑی کے ہاں سے پان آ گئے۔ ہاں حقہ بہت ہی پیتی ہیں۔ حقہ آیا تو وہ آیا کہ گنوار بھی اس کو منہ لگاتے ذرا گھبرائیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوا وے تو سارے کا سارا مل کر کوئی دس سیر کا ہوگا۔ نیچے پر بان لپٹا ہوا، نے اتنی موٹی جیسے پھکنی، چلم ایسی کہ سوا پاؤ تمباکو آئے، لیجئے حقہ حاضر ہے۔حقے کا پانی ٹپکتا چلا آ رہا ہے۔ یہ بھی کوئی نہیں دیکھتا کہ چاندنی پر رکھا گیا تو دھبا پڑ جائے گا۔ اب ہے کوئی ہمت والا جو اس حقے کا ایک دم بھی لگائے، کھانستے دم نہ نکل جائے تو میرا ذمہ۔ اب فرما رہی ہیں، ’’پیجئے پیجئے۔ امبر سر کا تمباکو ہے، کل ہی سردار صاحب نے لا کر دیا ہے۔ بھلا کسی کی شامت آئی ہے جو اس حقے کا دم لگا کر مفت میں اپنی جان کو مصیبت میں ڈالے اور خود بھی جان نے جو دم لگایا تو حقہ بھی چیخ اٹھا۔ منہ اوپر کر کے جو دھواں چھوڑا تو معلوم ہوا کہ قطب کی لاٹھ کمرے میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ یہ میں نے اس رنڈی کا ذکر کیا ہے جو اس وقت چاوڑی کی ناک کہی جاتی ہے، دوسروں کی کچھ نہ پوچھو، ان کے تو دروازے ہی پر قدم رکھنا مشکل ہے۔پہلے زمانے کی چاوڑی تو تجھے یاد ہوگی۔ گرمی کا موسم ہے اور ادھر شام ہوئی، ادھر سب کمرے روشن ہو گئے۔ یہاں گانا ہو رہا ہے وہاں گانا ہو رہا ے۔ شوقین بیٹھے سن رہے ہیں۔ شریف لوگ سفید براق کپڑے پہنے، موتیا کے گجرے گلے میں ڈالے مولسری کی لڑیاں ہاتھوں میں لپیٹے سڑک پر ٹہل رہے ہیں۔ چہل قدمی ہو رہی ہے، گانے کا لطف بھی آ رہا ہے۔ بارہ ایک بجے تک یہی گہما گہمی رہی، اس کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو جا آرام سے سو رہے۔ اب چاوڑی میں رات کو جائیے تو دوسرا ہی رنگ نظر آتا ہے۔ بر آمدوں میں کھمبوں سے لگی رنڈیا کسی انتظار میں بیٹھی ہیں۔ ایک آدھ کوٹھے پر روں روں بھی ہو رہی ہے۔ مگر گانا کیا ہے، بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بی جان اپنی اماں کو یاد کر کے رو رہی ہیں۔ سنتا ہوں اب سب کی سب چاوڑی سے نکالی جانے والی ہیں، اچھا ہوگا۔ ’’خس کم جہاں پاک۔‘‘میں نے کہا، ’’مرزا صاحب بھلا رنڈیوں سے دلی کے اچھے برے ہونے سے کیا واسطہ؟‘‘۔ کہنے لگے، ’’واہ بیٹا، واہ خوب سمجھے اور ننھے بن جاؤ۔ یار عزیز انہیں سے تو دلی دلی تھی، نہیں تو دلی میں رکھا ہی کیا تھا۔ ذرا حکیموں کے مطب میں جا کر دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ دلی کی زبان کا سنبھالنے والا کون ہے۔ کبھی کسی کوٹھے پر گئے ہوتے تو پتا چلتا کہ آداب مجلس کس کو کہتے ہیں۔ ذرا ان کے بننے سنورنے کو دیکھتے تو پتا چلتا کہ لباس کس کو کہتے ہیں۔ ذرا ان کے کمروں کو دیکھا ہوتا تو سمجھتے کہ سلیقہ کس کو کہتے ہیں۔ میاں رنڈیاں دلی کی تہذیب کا نمونہ تھیں۔ لاکھ عورتوں میں سے الگ نکال لوں کہ یہ دلی کی رنڈی ہے۔ اب جیسی روح ویسے فرشتے، خیر بڑے متقی پرہیزگار سہی، رنڈیوں کو چھوڑو ان شہر والوں کو لو۔ لعنت ہے، ان کی شکل پر، یہ دلی والے ہیں؟ خدا کے لئے سچ کہنا، کیا ان کو کوئی دلی والا کہے گا۔ بال دیکھو تو جھاڑ جھنکاڑ، منہ دیکھو تو ہیجڑوں کا سا، لباس دیکھو تو سبحان اللہ، نیچے قمیض ہے اور اوپر کرسٹانوں جیسا چھوٹا کوٹ، ٹانگوں میں دو تھیلے چڑھائے گٹ پٹ گٹ پٹ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیجئے یہ ہیں آپ کے دلی والے۔ اور تو اور، کم بخت عورتوں نے بھی اپنی عجیب وضع بنا لی ہے، انگیا، کرتی، اور ڈھیلے ڈھالے پائجامے تو غدر کے ساتھ گئے۔ چوڑی دار تنگ پائجامے اور کرتے دربار کے ساتھ رخصت ہو گئے۔ اب لباس کیا ہے بس سمجھ لو کہ کہیں اینٹ اور کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔سلیقے کا حال یہ ہے کہ بچوں کی مالک آیا، باورچی خانے کی مالک ماما، سینے پر ونے کا ذمہ دار درزی، درزی نہیں، ٹیلر ماسٹر۔ اب ان کو گھر والیاں کون کہے گا۔ شام ہوئی اور بیگم صاحبہ ہوا خوری کو نکلیں۔ صاحب ایک طرف گئے، میم صاحب دوسری طرف گئیں۔ اب نہ ان کوان کی خبر اور نہ ان کو ان کی۔ لیجئے یہ آپ کی دلی کی شرم و حیا رہ گئی ہے۔ کچھ بچے کھچے گھرانے اپنی پرانی چال پر چل رہے ہیں، لیکن کب تک۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ وہ بھی یا تو اسی بھیڑ چال کو اختیار کریں گے یا نکو بن جائیں گے۔‘‘میں نے کہا، ’’مرزا صاحب! یہ تو نہ کہو، پردہ تو دلی میں اب بھی خاصا ہے۔‘‘ کہنے لگے، ’’اوہو! تو ماشاء اللہ آپ کے حیدرآباد کا کچھ اس سے بھی زیادہ تیز رنگ ہے۔ بندۂ خدا، یہ کوئی پردہ ہے، پہلے باہر والیاں بھی نکلتی تھیں تو اوڑھے لپیٹے تھیں، برقع اوڑھتی تھیں تو اس طرح کہ صرف ایک آنکھ باہر رہے، نہ اس طرح کہ جیسے اب پھرتی ہیں۔ برقع تو اب بھی ان کے سر پر ہے لیکن پلو ہیں کہ ادھر ادھر اڑ رہے ہیں، خود ہیں کہ برقعے سے دو قدم آگے مرد میدان بنی چلی جا رہی ہیں۔ اب برقعے کو برقع سمجھ کر تھوڑے ہی پہنا جاتا ہے، صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ مسلمان ہیں، رسم چلی آتی ہے اس کو پورا کر رہے ہیں۔ جب اپنے ہی برے ہوگئے تو دوسرے قوم والوں کو کیا کہوں۔بس یہ سمجھ لو کہ پہلے جن کی انگلی نہیں دکھائی دیتی تھی ان کی پنڈلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ارے بھئی، یہ تو جو کچھ تھا سو تھا، اب دل بھی تو صاف نہیں رہے، ایک دوسرے کو کھاے جاتے ہیں، ہندو مسلمانوں سے بیزار ہیں اور مسلمان ہندوؤں سے بیزار۔ بات بات پر کٹے مرتے ہیں۔ ذرا کلو نے ملو کو گالی دی یا ملو نے کلو کو مارا تو سمجھ لو قیامت آگئی، یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ میاں معاملہ کیا ہے؟ آخر لڑنے کا سبب کیا تھا؟ مسلمانوں سے پوچھو تو کہتے ہیں ہم نہیں جانتے، مسلمان کو ہندو نے کیوں مارا، ہندو سے پوچھو تو کہتے ہیں میاں پرے ہٹو، ہم کو اس سے غرض نہیں کہ کیا ہوا ہندو کو مسلمان نے کیوں گالی دی۔جو ہے آپے سے باہر ہوا جاتا ہے۔ جس کو دیکھو بھوکے شیر کی طرح بپھر رہا ہے۔ آج اس کا سر پھوٹا کل اس کا خاتمہ ہوا، ہسپتال بھرے چلے جا رہے ہیں، ولایت سے دواؤں پر دوائیں چلی آ رہی ہیں، ڈاکٹروں کی فیس بھرتے بھرتے دوالا نکلا چلا جاتا ہے، اور ہے کیا کہ کلو نے ملو کو مارا ہے، خاکیوں اور گوروں سے بھری موٹریں ادھر سے ادھر پوں پوں کرتی چلی جا رہی ہیں، توپیں کھڑ کھڑ کرتی ادھر سے ادھر دوڑ رہی ہیں، ہوائی جہاز چیلوں کی طرح سروں پر منڈلا رہے ہیں، تلاشیاں ہو رہی ہیں، لوگ پکڑے جا رہے ہیں، جیل خانے بھر رہے ہیں، اور یہ سب کس لیے کہ ملو نے کلو کو گالی دی تھی لیجیے یہ آپ کی دلی ہے، اور یہ آپ کے دلی والے ہیں۔کل ہی کا قصہ ہے کہ میں بلیوں کے کٹرے سے قاضی کے حوض آ رہا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ پنڈت کے کوچے کے قریب دو بجار لڑ رہے ہیں، سب راستے ہیں کہ بند ہیں، موٹریں گاڑیاں، ٹرام، تانگے، پیدل غرض سارے راستے کا راستہ کھڑا ہے، اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ آگے بڑھ کر اور دو لٹھ مار کر انھیں علیحدہ کر دے، آخر جب لڑتے لڑتے خود ہی تھک گئے، اس وقت ایک بھاگا، دوسرا اس کے پیچھے بھاگا، دو تین آدمی جھپٹ میں آ گیے جب کہیں جا کر راستہ کھلا۔میں نے کہا، ’’مرزا صاحب آخر مار کر بھگا دینے میں کیا حرج تھا۔‘‘ کہنے لگے، ارے بھائی خون خرابے ہو جاتے وہ کیا لفظ ہے تصادم ہو جاتا، ’’بین الاقوامی تصادم ہو جاتا۔‘‘میں نے کہا، ’’ہیں، یہ بین الاقوامی تصادم؟ یہ بھی آپ نے خوب کہی۔‘‘ کہنے لگے، ’’ہاں میاں! تم پڑھے لکھے آدمی ہو۔ ہماری زبان میں مین میخ نکالتے ہو، ہم تو اب یہی سنتے ہیں کہ جب دو قومیں لڑتی ہیں تو اخبار والے اس کو بین الاقوامی تصادم کہتے ہیں۔ اب جانے ہماری بلا، وہ صحیح کہتے ہیں کہ غلط، انہی سے جا کر پوچھو کہ اس کے کیا معنی ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو بڑے بڑے واقعات ہو جاتے تھے جب بھی بین الاقوامی تصادم نہیں ہوتا تھا۔’’کوئی پچیس تیس برس کی بات ہے کہ ہم پھول والوں کی سیر کو جار رہے تھے۔ تم کو یاد ہوگا سیدھی سڑک قطب کو جاتی تھی۔ اب بھی کبھی ادھر گئے ہو؟ خدا نہ لے جائے۔ قطب جانا مشکل ہو گیا ہے۔ چاروں طرف سڑکیں ہی سڑکیں ہیں، بے لکھا پڑھا آدمی صبح کو چلے تو کہیں شام کو جا کے قطب پہنچے۔ اب ادھر چلو، اب ادھر گھومو، اب ادھر جاؤ۔ ہر موڑ پر تختی لگی ہوئی ہے، پڑھنے والے پڑھ لیتے ہوں گے ہماری تو خاک سمجھ میں نہیں آتا۔ جہاں دیکھو تختی پر ہاتھ بنا ہے، ایک انگلی آگے کو نکلی ہے یعنی ادھر جاؤ آخر ادھر جاؤ تو کہاں جاؤ؟ یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ ادھر بھی سڑک ہے، کہیں جاتی ہی ہوگی لیکن جاتی کہاں ہے کیوں کر معلوم ہو؟ اگر ہاتھ کی جگہ قطب کی لاٹھ بننا دیتے تو سب سمجھ جاتے کہ یہ سڑک قطب کی لاٹھ کو جاتی ہے۔ مقبرہ بنا دیتے تو جان جاتے کہ یہ سڑک مدرسے 1 کو جاتی ہے۔سڑکیں کیا ہیں، خاصی بھول بھلیاں ہیں۔ سڑک پر یہاں وہاں، جہاں دیکھو سپاہی کھڑے تھرک رہے ہیں کہ کبھی یہ ہاتھ اونچا کرتے ہیں کبھی وہ۔ کبھی ادھر پھر جاتے ہیں کبھی ادھر، غرض کیا کہوں دلی کی سڑکیں بھی تماشا ہو گئی ہیں۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک دفعہ ہم قطب جا رہے تھے کہ منصور کے مقبرے کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اونٹ گاڑی چلی آ رہی ہے، اندر بیسیوں آدمی ٹھسا ٹھس بھرے ہیں۔ چھت پر بوریاں لدی ہیں، ان کے بیچ میں پانچ چھے گنوار دبکے دبکائے بیٹھے ہیں۔ میاں میواتی اونٹ کی نکیل تھامے سامنے کے تختے پر بیٹحے اونگھ رہے ہیں۔خدا کی قدرت دیکھو۔ دوسری طرف سے ایک یکہ آ رہا تھا، یکے میں تین ہندو سیلانی، ایک بیچ یں دو ادھر ادھر۔ ایک ہاتھ سے چھتری کے ڈنڈے پکڑے، دوسرا ہاتھ ٹوپی سنبھالنے کے لئے سر پر دھرے، صاف ستھرے کپڑے پہنے چلے آ رہے ہیں، یکے والے نے ہری ہری گھاس چھتری کے اندر باندھ رکھی تھی کہ قطب میں کام آئے گی۔ یکہ جو اونٹ گاڑی کے پاس سے گزرا تو میاں اونٹ کی نظر گھاس پر پڑی۔ انہوں نے بڑے اطمینان سےاپنی گردن بڑھا، چھتری میں داخل کر دی۔ سیلانیوں نے ہشت ہشت کی۔ اونٹ نے جو گھبرا کر گردن سیدھی کی تو یکہ گردن میں لٹک گیا، بھئی مزہ آ گیا۔اونٹ کے گلے میں بلی تو سنی تھی۔ یہ اونٹ کے گلے میں یکہ اسی دن دیکھا۔ خیر، ادھر ٹٹوانی نے ہاتھ پاؤں مارے، ادھر یکے والے نے غل مچایا۔کچھ راہ گیروں نے گڑ بڑ کی۔ اونٹ نے جو گردن کو جھٹکا دیا تو یکہ اور سیلانی وہ جا کر گے۔ چوٹیں بھی آئیں کپڑے بھی خاک میں ملے، نقصان بھی ہوا۔ مگر نہ کچھ جھگڑا ہوا نہ ٹنٹا۔ یکے الے نے کچھ گڑ بڑ شروع کی تھی۔ ا س کو لوگوں نے ڈانٹ دیا کہ چل بے، یہ ہوتا ہی ہے۔ نہ چھتری میں گھاس باندھ کر لاتا نہ اونٹ گردن ڈالتا، نہ یہ تماشا ہوتا۔ لیجئے معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ خدا نخواستہ اگر آج کل یہ واقعہ پیش آ جاتا تو بات کہیں کہ کہیں پہنچتی، خوب کٹم کٹا ہوتی، لکڑی چلتی، نالشا نالشی ہوتی اور کیوں نہ ہوتی۔ کسی مسلمان کے اونٹ کا کسی ہندو کے ٹٹو کو زخمی کرنا کوئی معمولی بات ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’تو مرزا صاحب! آپ دلی کی عورتوں سے تو خفا تھے ہی، مردوں سے بھی صاف نہیں۔‘‘کہنے لگے، ’’مرد عورت تو کیا، میں تو دلی کی ہر بات سے خفا ہوں۔ اب اس گدڑی ہی کو دیکھ لو، اب گدڑی تھوڑی رہی ہے خاسا بزازا ہو گیا ہے۔ جو مال شہر میں نہ ملے، یہاں سے لے لو۔ سودے والے ہیں، وہ نئی نئی آوازیں نکالتے ہیں۔ اب جو یہ ’’قی ای، قی ای‘‘ پکار رہا ہے، جانتے ہو کیا بیچ رہا ہے؟ میاں کھیر بیچ رہا ہے۔ بھلا اس آواز پر کوئی کیا آئے گا۔ کاچھی سب گونگے ہو گئے یا کسی زمانے میں گرمی کا موسم ہے تو آوازیں آ رہی ہیں، ’’کالے اودے لگا دیے ہیں شربت کو، سانولے سلونے لگادیے ہیں شربت کو۔‘‘ جاڑا ہے تو آوازیں آ رہی ہیں، ’’گھونگٹ والی نے توڑے ہی بیر، لاڈو پیاری نے توڑے ہیں بیر۔ اب کاچھی تو دلی سے ناپیدا ہو گئے، ہا ں فتح پوری کے نیچے کچھ میوے والے بیٹھے ہیں، وہ ٹھہرے کابلی، اردو بھی کچھ یوں ہی سی جانتے ہیں۔آوازیں کیا لگائیں گے اور لگائیں گے بھی تو لوگ ڈر کر بھاگ جائیں۔ پہلے چاندنی چوک میں یہاں سے وہاں تک میوے والوں کی دکانیں تھیں۔ نیچے نہر، اوپر درختوں کا سایہ، جا بجا فالودے والوں کی دکانیں، دکانوں کے سامنے کہیں بنچ بچھے ہیں، کہیں مونڈھے پڑے ہیں۔ لوگ آئے بیٹھے، ادھر ادھر کی باتیں کیں پیسے دو پیسے کا شربت پیا، اٹھے، چلے گئے۔ اب نہ پٹڑی ہے نہ درخت۔ فتح پوری سے لگا، قلعے تک صفا چٹ میدان ہے۔ گرمی میں یہاں سے وہاں جاؤ تو فشار ہو جائے یا وہ زمانہ تھا کہ دوپہر کو بھی اس سڑک پر بہار ہوتی تھی۔ گھر میں وہ آرام نہ ملتا تھا جو یہاں ملتا تھا۔ اور اس چاندنی چوک کو تو دیکھو کیا کالی بھٹ ہو ئی ہے۔ ایک چکر لگا کر جاؤ تو معلوم ہو کہ ابھی کوئلہ بیچ کر آ رہے ہو اور گرم ایسی کی تندور (تنور) بھی کیا ہوگا، دوپہر کو روٹیاں پکالو۔ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ قیمتی سڑک یہی ہوتی ہے۔ ہاں بھائی ہوگی۔ ولایت کا مال لگا ہے قیمتی کیوں نہ ہوگی۔’’ایک دن رام لیلا دیکھنے نکلا تھا،۔ رات کے بارہ بجے تک تو یہ سڑک ٹھنڈی ہوئی نہ تھی۔ اور ہاں میاں فرحت! کبھی رام لیلا کے زمانے میں بھی دلی آئے ہو؟‘‘
میں نے کہا، ’’جی نہیں۔‘‘کہنے لگے، ’’ارے بھئی کیا کہوں! اس میلے کے ٹوٹنے کا جتنا رنج کیا جائے کم ہے۔ پہلے جو سواری نکلتی تھی تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی بڑے بادشاہ کا جلوس جا رہا ہے۔ ہندو مسلمان، امیر و غریب، شریف رذیل سب کے سب کھانا وانا کھا، سفید کپڑے پہن، چاوڑی میں شام ہی سے نکل آتے۔ کوٹھے ہیں کہ روشنی سے پڑے جگمگ جگمگ کر رہے ہیں۔ رنڈیاں ہیں کہ بنی سنوری گاؤ تکیوں سے لگی بر آمدوں میں بیٹھی ہیں۔ نیچے سے کچھ بات ہوتی ہے، اوپر سے جواب ملتا ہے۔ ادھر پان آ رہے ہیں، ادھر سے روپے جا رہے ہیں۔ بھیڑ کا یہ عالم کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ روشنی کا یہ عالم کہ جیسے دن نکلا ہو۔ سواری اس شان سے آتی کہ کیا کہوں۔ہنسی خوشی چار پانچ گھنٹے گزار گھروں میں جا پڑے اور اب کی سواری دیکھو تو واہ واہ۔ آگے توپ ہے، پیچھے توپ ہے،۔ سامنے فوج ہے، پیچھے فوج ہے، سپاہی ہیں کہ ڈنڈے بجا رہے ہیں۔ ایک غل مچ رہا ہے کہ بڑھے چلو، بڑھے چلو، کوٹھے بند ہیں اور ان کا بند ہونا ہی اچھا ہے۔ بھلا آج کل کی کوٹھے والیوں سے میلے کی کیا شان بڑھ سکتی ہے۔ کوٹھے کی چھتوں پر پولس والے چڑھے ہوئے ہیں۔ جہاں چار آدمی جمع ہوئے اور سپاہی نے ڈانٹا کہ آگے بڑھو۔ ذر اہچر مچر کی تو پکڑ تھانے میں لے گئے۔ بھلا اس مصیبت میں کون پڑے۔ بھلے آدمیوں نے تو جانا ہی چھوڑ دیا۔ ایک مذہبی رسم رہ گئی وہ پوری ہو جاتی ہے۔ اس میں بھی کبھی کبھی مار کٹائی کی نوبت آ جاتی ہے اور ہم سے پوچھو تو نہ اب وہ رام لیلا ہے اور نہ رام لیلا کا مزا۔اس سے بدتر حال پھول والوں کی سیر کا ہے۔ بس یہی دو میلے ایسے تھے کہ سارے جہان میں لا جواب تھے، اب نہ رام لیلا وہ رام لیلا ہے اور نہ پھول والوں کی سیر، وہ پھول والوں کی سیر ہے۔ پہلے بھادوں آیا، سیر کی تاریخ مقرر ہوئی۔ نفیری بج گئی۔ مہرولی آباد ہونی شروع ہوئی۔ مکانوں میں سفیدی ہو رہی ہے کمرے سجائے جا رہے ہیں۔ کرائے کا یہ حال ہے کہ پہلے جو کمرا دو روپے مہینے کو ملے وہ سو روپے روز کو ملنا مشکل ہے۔ رنڈیاں رتھوں میں بیٹھی جا رہی ہیں۔ امیر فٹنس اڑائے چلے جاتے ہیں۔ غریب غربا مٹکے سروں پر اوندھائے، لنگوٹ کسے، چیخیں اڑاتے، گاتے بجاتے چلے جا رہے ہیں۔ قطب کی لاٹ تک آدمی ہی آدمی ہوتا تھا۔ بڑے لوگ تو اپنے کمروں میں جا، نہا، دھو کپڑے بدل نکل آئے۔ غریبوں نے جھرنے پر جا، دو تین غوطے مارے، مٹکے میں سے تحفہ کپڑے نکالے، کار چوبی ٹوپی، ٹاٹ بافی جوتا، شربتی کل کا کرتا، انگرکھا، نٹ مار لٹھے کا پائجامہ پہن۔ ایسے نکلے جیسے چاند گہن سے نکلتا ہے۔ بھلا دیکھ کر کوئی کہہ تو دے کہ یہ میاں قادر سقے ہیں اور یہ نتھو کہار۔مہرولی میں اس سرے تک دکانیں لگی ہیں۔ لوگ بیٹھے ہیں، کھا رہے ہیں، باتیں ہو رہی ہیں۔ ادھر گانا ہو رہا ہے، ادھر دف بج رہا ہے، باریک باریک پھوار پڑ رہی ہے۔ ایک دفعہ ہی نفریری کی آواز آئی۔ لیجئے جگ مایا جی کا پنکھا آ گیا۔ سب کے سب اس میں جا شریک ہوئے۔ عبد الوہاب کٹورا بجا رہا ہے، نفیری کے کمال دکھائے جا رہے ہیں، بیلیں مل رہی ہیں، کوئی روپیہ دیتا ہے کوئی دو شالہ۔ رات کے ایک دو بجے تک یہی چہل پہل رہی۔ دوسرے دن درگاہ شریف میں پنکھا چڑھا۔ وہاں اس سے زیادہ دھوم رہی۔ چار پانچ روز آنکھ بند کرتے گزر گئے۔ ہنسی خوشی گھر آئے، قطب کے پراٹھے لائے۔ چاندی کے چھلے لائے، اب گھر گھر پراٹھے اور چھلے بٹ رہے ہیں۔اور اب کی پھول والوں کی سیر؟ خدا نہ دکھائے شریف لوگ تو وہاں کیوں جانے لگے۔ جاتے ڈرتے ہیں کہ کہیں بین الاقوامی تصادم نہ ہو جائے۔ میں نے کہا، ’’مرزا صاحب بین الاقوامی تصادم نہیں فرقہ واری جنگ۔‘‘کہنے لگے، ’’چل ہٹ، جو بین الاقوامی تصادم، وہی فرقہ واری جنگ، نہ اس کے کچھ معنی، نہ اس کے کچھ معنی۔ خواہ مخواہ اخبار والوں نے نئے نئے لفظ گھڑ لئے ہیں اور تونے یہاں کی زبان بھی سنی؟ سبحان للہ! کیا زبان ہے اور اسی پر مرے جاتے ہیں کہ اردو ہماری زبان ہے۔ لکھنؤ کا حال تو مجھے معلوم نہیں، ہاں دلی کی زبان تو اب کچھ نئی ہو گئی ہے۔ وہ وہ لفظ سننے میں آتے ہیں کہ کیا کہوں اور ان پڑھے لکھے لوگوں نے تو زبان کو اور بھی غارت کر دیا ہے۔ ایک لفظ اردو کا بولیں گے تو دو انگریزی کے۔ بھئی مجھے تو یہاں کی زبان سے بھی نفرت ہو گئ ہے۔ پرسوں ہی جمعہ کو جامع مسجد میں ایک مولوی صاحب وعظ کر رہے تھے۔ ماشاء اللہ کیوں نہ ہو مولوی تھے۔ چھانٹ چھانٹ کر وہ وہ لفظ حلق سےنکالے کہ سبحان اللہ۔ میری تو خاک سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر یہ کیا کہہ رہے ہیں۔’’یہ تو رہے مسلمان۔‘‘اب ہندوؤں کی گفتگو سنو تو وہ اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم ہندی بولتے ہیں۔ جو وہ بولتے ہیں اگر اسی کا نام ہندی ہے تو میاں ہم مرتے مر جائیں گے مگر یہ زبان نہ آئے گی۔ اچھا بھئی، ہم عربی بولیں، تم ہندی بولو، مگر اس طرح کہ جو لفظ ہماری تمہاری اردو میں نہیں ہے اس کے لئے مولوی صاحب عربی کا لفظ استعمال کریں، پنڈت جی سنسکرت کا لفظ بولیں۔ یہ کیا ہے کہ اردو میں لفظ موجود ہے ایک صاحب سنسکرت کا یہ موٹا لفظ لائیں اور دوسرے صاحب عربی کا یہ بڑا لفظ، قاموس میں سے نکال کر استعمال کریں۔ ارے بھئی، یہ سنتا ہوں تمہارے ہاں بھی تو اردو کا کوئی بڑا مدرسہ کھلا ہے، سب علم اردو ہی میں پڑھایا جاتا ہے؟‘‘میں نے کہا، ’’جی ہاں، کلیہ جامعہ عثمانیہ۔‘‘مرزا صاحب بڑے زور سے قہقہہ مار کر کہنے لگے، ’’اوہو، یہ نام اور اردو کا مدرسہ، معلوم ہوتا ہے وہاں بھی مولویوں کا زور ہے۔ خیر جامعہ تو یہ جیسے جامع مسجد عثمانیہ تمہارے بادشاہ کا نام ہو اور میاں یہ کلیا کیا بلا ہوئی؟‘‘ میں نے کہا، ’’آپ اس بحث کو چھوڑیئے۔ دلی کی کچھ اور سنائیے جب دلی کی ہر چیز اسے آپ کو نفرت ہے توکیسے گزرتی ہوگی‘‘۔کہنے لگے، ’’میاں، بیت گئی، تھوڑی رہی ہے۔ صبح ہی اٹھتا ہوں۔ نماز پڑھ کر کبھی منہدیوں میں چلا جاتا ہوں، کبھی کلو کے تکیئے۔ 2
پرانی دلی والے وہاں آرام کر رہے ہیں۔ انکی قبروں پر جا بیٹھتا ہوں۔ ان کی اور ان کی دلی کو یاد کر کےد و آنسو بہا لیتا ہوں۔ جی ہلکا ہو جاتا ہے۔ شام کو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر آ بیٹھتا ہوں اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھتا ہوں کہ پہلے دلی کیا تھی اور اب کیا ہو گئی۔‘‘اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ مرزا صاحب رومال جھاڑ، اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، ’’میاں فرحت، یہاں بس اسی لئے آتا ہوں، اگر دلی میں کچھ لطف رہ گیا ہے تو جامع مسجد میں مغرب اور عشا کی نماز میں رہ گیا یہ بھی نہ ہوتا تو کچھ کھا کر سو رہتا۔‘‘دوسرے دن میں حیدر آباد چلا آیا۔ سارے راستے مرزا صاحب کی باتوں کا خیال رہا جو خوشی دلی جا کر ہوئی تھی، وہ مرزا صاحب کی باتوں نے خاک میں ملا دی۔ یہ تو میں بھی کہوں گا کہ دلی مجھ کو بھی کچھ نئی معلوم ہونے لگی ہے اور شاید اسی وجہ سے اس کا نام نئی دلی رکھا گیا۔ جو دلی ہمارے زمانے میں تھی وہ تو اب نہیں رہی۔ اب چاہے دلی والے اس کو مانیں یا نہ مانیں۔
حاشیے
(1) دہلی میں ان بیلوں کو بجار کہتے ہیں جو کسی دیوتا کے نام پر چھوڑ دیئے جاتے ہیں، ان کو سانڈ بھی کہتے ہیں۔ مگر ب، ج، ا، ر کا لفظ زیادہ مستعمل ہے۔
(2) ہمایوں اور منصور کے مقبروں کو مدرسہ ہی کہتے ہیں۔
(3) منہدیا اور کلو کا تکیہ، دلی کے دو بڑے قبرستان ہیں۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |