میں گلا تم سے کروں اے یار کس کس بات کا
میں گلا تم سے کروں اے یار کس کس بات کا
یہ کہانی دن کی ہو جائے نہ قصہ رات کا
ترک کی مجھ سے ملاقات آپ نے اچھا کیا
غم مٹا ہر وقت کا جھگڑا گیا دن رات کا
بے تمیزوں سے طبیعت آشنا ہوتی نہیں
چاہنے والا ہوں میں محبوب خوش اور رات کا
میں تو کچھ کہتا ہوں تم سے تم سمجھتے ہو کچھ اور
جبکہ باتوں میں کلام آیا مزا کیا بات کا
تیرے آنے کی دعا مانگا کبھی جاگا کیے
رات بھر عالم رہا اے بت خدائی رات کا
واہ کیا نام خدا سج دھج ہے کیا انداز ہے
آدمی دیکھا نہیں اس قد کا اور اس کات کا
سامنے یوں آئے بوتل جیسے آتی ہے گھٹا
جام یوں جھلکے کہ میں دیکھوں سماں برسات کا
عشق وہ غارت گر ایماں ہے یہ چاہے اگر
واعظوں کو کلمہ پڑھوائے منات و لات کا
ایسے جھوٹے ہو اگر سچ بھی کبھی ہو بولتے
اعتبار آتا نہیں صاحب تمہاری بات کا
یار تم کو دل نہیں دینے کا بے بوسہ لیے
تم جو اپنی گونگے ہو میں بھی ہوں اپنی گھات کا
اہل دنیا خوش ہوں یا نا خوش ہوں کچھ پروا نہیں
آسرا رکھتا ہے یہ بندہ خدا کی ذات کا
جب تمہاری کان کی بجلی چمک کر رہ گئی
میری آنکھوں نے سماں دکھلا دیا برسات کا
قامت جاناں ہے میل منزل اول مجھے
کاکل شب گوں ہے جادہ وادیٔ آفات کا
تاش کا موباف چوٹی میں مقرر چاہئے
چاندنی سے اور ہی ہوتا ہے جوبن رات کا
بحرؔ اپنی اپنی قسمت ہے بہ شکل مہر و ماہ
زر اسے بخشا اسے کاسہ دیا خیرات کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |