میں وہ مجنوں ہوں کہ آباد نہ اجڑا سمجھوں
Appearance
میں وہ مجنوں ہوں کہ آباد نہ اجڑا سمجھوں
مشت خاک اپنی اڑا کر اسے صحرا سمجھوں
اس قدر محو ہوں ان شعلہ رخوں کا جوں شمع
کہ نہ جلنے کو پہچانوں نہ تماشا سمجھوں
چشمک یار ہیں مجھ شمع کے حق میں گل گیر
دم یہ قینچی کے میں انفاس مسیحا سمجھوں
گردش چشم سجن لے گیا خاطر سے غبار
اس کو دشت دل عزلتؔ کا بگولا سمجھوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |