میں وہ بے چارہ ہوں جس سے بے کسی مانوس ہے
Appearance
میں وہ بے چارہ ہوں جس سے بے کسی مانوس ہے
جو ہتھیلی ہاتھ میں ہے اک کف افسوس ہے
اس قدر رنج سیہ بختی سے ہوں زار و نحیف
دو قدم چلنا بھی جس کو ایک کالے کوس ہے
آسماں نان جویں بھی دے تو نعمت جانیے
پاؤ روٹی بھی جو ہاتھ آئے سمجھے توس ہے
غیر کے خاطر دھرا جاتا ہوں میں مفت خدا
کوئی ملزم ہو وہ بت دیتا مجھی کو دوس ہے
شادؔ آسا ہے اسے بھی بوسۂ لب کی ہوس
بوالہوس بھی اے شکر لب ایک ہی لہلوس ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |