میں وہ آتش نفس ہوں آگ ابھی
Appearance
میں وہ آتش نفس ہوں آگ ابھی
خرمن برق میں لگا دوں گا
روٹھو مجھ سے نہ وہ بلا ہوں میں
رونی صورت کو بھی ہنسا دوں گا
تو اٹھائے جو خنجر پر خم
گردن اپنی وہیں جھکا دوں گا
آہ سے عرش کو ہلا دوں گا
کنگر چرخ کو جھکا دوں گا
نہ چلو مجھ سے تم رقیبوں چال
انگلیوں پر تمہیں نچا دوں گا
وقت رونے کے آہ سوزاں سے
دامن ابر کو جلا دوں گا
آگے میرے نہ شیخی مار اے شیخ
رات کا ماجرا سنا دوں گا
آہ کو میری بے اثر نہ کہو
میں تماشا ابھی دکھا دوں گا
تم جو ہر روز کہتے ہو مر مر
ایک دن مر کے بھی دکھا دوں گا
دوسرے کو جو دو گے دل میں بھی
دل کے نقش وفا مٹا دوں گا
شیخ چل تو شراب خانے میں
میں تجھے آدمی بنا دوں گا
مشرقیؔ دے اگر وہ جام شراب
دل سے غم میں ابھی مٹا دوں گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |