Jump to content

میں نہ ہوں گا کبھی تجھ سے بت عیار جدا

From Wikisource
میں نہ ہوں گا کبھی تجھ سے بت عیار جدا (1933)
by منشی ٹھاکر پرساد طالب
324044میں نہ ہوں گا کبھی تجھ سے بت عیار جدا1933منشی ٹھاکر پرساد طالب

میں نہ ہوں گا کبھی تجھ سے بت عیار جدا
آگ پتھر سے نہیں ہونے کی زنہار جدا

حشر تک ہوں گے نہ کفار سے دین دار جدا
کہیں تسبیح سے ہوتی نہیں زنار جدا

فرق ظاہر ہے جو کچھ طائر و انسان میں ہے
ہو نہ پھر کبک سے کیوں یار کی رفتار جدا

کس لئے شیخ کو ہے طرح پر پیچ پہ ناز
سر سے مینا کے بھی ہوتی نہیں دستار جدا

نیند میں دولت دیدار ہوئی مجھ کو نصیب
خواب کے ہوتے ہیں کیا دیدۂ بے دار جدا

کوئی نسبت نہیں یوسف کو مرے دلبر سے
اس کا بازار جدا اس کے خریدار جدا

فیصلہ کیا ہو دو عملے میں پھنسے ہیں آ کر
ہے خفا موت جدا یار ہے بیزار جدا

واسطہ بت سے نہ ہم کو نہ خدا سے مطلب
مذہب رند جدا ملت دیں دار جدا

قتل کو میرے پری رو مژہ و ابرو کی
برچھی رکھتے ہیں الگ ہوتی ہے تلوار جدا

تفرقہ ہو جسد و روح میں پرواہ نہیں
ہو نہ عاشق سے یہ معشوق طرحدار جدا

ان حسینوں پہ مرے خلق نہ کیوں کر طالبؔ
سحر گفتار جدا اور طرحدار جدا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).