میں نہ ہوں گا کبھی تجھ سے بت عیار جدا
میں نہ ہوں گا کبھی تجھ سے بت عیار جدا
آگ پتھر سے نہیں ہونے کی زنہار جدا
حشر تک ہوں گے نہ کفار سے دین دار جدا
کہیں تسبیح سے ہوتی نہیں زنار جدا
فرق ظاہر ہے جو کچھ طائر و انسان میں ہے
ہو نہ پھر کبک سے کیوں یار کی رفتار جدا
کس لئے شیخ کو ہے طرح پر پیچ پہ ناز
سر سے مینا کے بھی ہوتی نہیں دستار جدا
نیند میں دولت دیدار ہوئی مجھ کو نصیب
خواب کے ہوتے ہیں کیا دیدۂ بے دار جدا
کوئی نسبت نہیں یوسف کو مرے دلبر سے
اس کا بازار جدا اس کے خریدار جدا
فیصلہ کیا ہو دو عملے میں پھنسے ہیں آ کر
ہے خفا موت جدا یار ہے بیزار جدا
واسطہ بت سے نہ ہم کو نہ خدا سے مطلب
مذہب رند جدا ملت دیں دار جدا
قتل کو میرے پری رو مژہ و ابرو کی
برچھی رکھتے ہیں الگ ہوتی ہے تلوار جدا
تفرقہ ہو جسد و روح میں پرواہ نہیں
ہو نہ عاشق سے یہ معشوق طرحدار جدا
ان حسینوں پہ مرے خلق نہ کیوں کر طالبؔ
سحر گفتار جدا اور طرحدار جدا
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |